عالمی یوم یتامیٰ

عالمی یوم یتامیٰ
نقوش قلم ۔۔۔عطاالرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com

موجودہ دور میں ایام منانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ مدر ڈے، فادر ڈے، ارتھ ڈے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں روز

کرنے چاہیے ان کی یاددہانی سال میں ایک بار تو ہو ہی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے 2013 میں ۱۵ رمضان کے دن کو ’’یوم یتیم‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ او آئی سی کی قرار دادمیں یتیم بچوں کی دیکھ بھال پر رکن ممالک اور مسلم این جی اوز پر زور دیا کہ مسلم ممالک باالخصوص دنیا بھر میں باالعموم دہشت گردی، بدامنی، قدرتی آفات اور دیگر وجوہات کی بنا پر شرح اموات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور یتیم بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اس لیے ان کی دیکھ بھال کا مستقل نظام وضع کیا جائے۔ گزشتہ دوسالوں سے اسلامی دنیا میں یہ دن پورے اہتمام سے منایا جارہا ہے۔

پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد تقریبا ۴۲ لاکھ ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں بشمول پرائمری، مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹیوں میں ان یتیم بچوں کے لیے نہ تو کوئی کوٹہ مقرر ہے اور نہ فیس میں کمی کا کوئی قانون بن سکا۔ گزشتہ ۲۰ سالوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکارہے ، جس کی وجہ سے یتیم بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ امر باالخصوص توجہ طلب ہے کہ بیرونی جارحیت اور اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بن جانے والے شہریوں کے بچوں کی دیکھ بھال کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں۔ آزادکشمیر میں کتنے ایسے شہید ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی جانیں دیں اور ان کے معصوم بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہیں لیکن وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کی بچوں کی کفالت کا کوئی انتظام ہم نہیں کر پائے۔ کنٹرول لائن پر آباد پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی براہ راست بھارتی گولوں کی زد میں ہے اور کتنے لوگ بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں اور کتنے بچے والدین کی شفقت سے محروم ہو رہے ہیں، ایک ہم ہیں کہ خبر پڑھ کر چند سیکنڈ افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور پھر بھنگ پی کر سو جاتے ہیں۔ حکمران تو اقتدار کے مزے لینے سے فارغ نہیں ہوتے لیکن عوامی سطح پر بھی کہیں کوئی تحریک نظر نہیں آرہی، کوئی منظم کوشش نہیں کی جارہی۔ ذرائع ابلاغ منفی پہلو کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کہیں سے ان یتیم بچوں کے لیے آواز اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔
او آئی سی کا شکریہ کہ اس نے ہمیں کم از کم ایک دن منانے اور ان یتیم بچوں کے حالات پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی خدمت کرنے والی چند ایک این جی اوز نے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ تشکیل دیا ہے۔جو اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یتیم بچوں کی خدمت کررہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ساری این جی اوز مل کر بھی اب تک دو لاکھ سے زائد بچوں کو اپنے نیٹ ورک میں نہیں لاسکیں۔ایک کام کا آغاز تو ہو چکا ہے اور دن بدن پیش رفت جاری ہے۔ مجھے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ایس او ایس ویلیج اور الخدمت فاونڈیشن کے آغوش ہومز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یقیناًیہ ادارے بہت معیاری ہیں لیکن ان میں موجود بچوں کی تعداد چند ہزار ہے اور ہمارے سامنے ۴۲ لاکھ بچے موجود ہیں۔ 
یہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو وہ کل ہمارے لیے سرمایہ بننے کے بجائے رہزن اور ڈاکو بننے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے منطقی نتیجے کے طور پر ہمارے بچے ان رہزنوں کا شکار ہوں گے۔ یہ کتنا تکلیف دہ پہلو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان یتیم بچوں کی کفالت دراصل اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کام اتنا مقدس ہے کہ جہاں اپنے بچے محفوظ ہوں گے وہاں ہمیں دنیا اور آخرت کا اطمینان اور جنت کی بشارت بھی ملے گی۔ دلوں کو سکوں اور آخرت میں راحت کیا کم صلہ ہے۔ 
انفرادی کوششوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس لیے ریاستی سطح پر اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرائمری سے سیکنڈری سطح پر یتیم بچوں کو سرکاری اداروں میں مفت داخلہ دیا جائے اور کتب و سٹیشنری ہر سکول کا صدرمعلم مقامی کمیونٹی کے تعاون سے فراہم کرے۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کے لیے دس فیصد کوٹہ مقرر کریں، جن کو فری تعلیم دی جائے۔ میٹرک میں اچھے نمبر لینے والے یتیم بچوں کے لیے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں کوٹہ مقرر کیا جائے اور سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں یتیم بچوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یتیم بچوں کا علاج معالجہ مفت ہو اور نجی ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ہاں آنے والے مریضوں کا دس فیصد تناسب سے یتیم بچوں کا مفت علاج کریں اور ہرماہ ان تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے عمل درآمد کی رپورٹ لی جائے۔اس طرح کاروباری اداروں (قومی اور ملٹی نیشنل) کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی آمدن کا ایک فیصد یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کریں گے اور اس مد میں خرچ کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پابند کیا جائے کہ ہر این جی او اپنے ہاں یتیم بچوں کا شعبہ قائم کرے گی اور اپنے وسائل کا ایک حصہ اس شعبے کے لیے وقف کرے گی۔
ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے اشتراک سے یتیم بچوں کے لیے فنڈریزنگ کی جائے اور ذرائع ابلاغ کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کی کفالت کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ عوامی بیداری کے لیے ہر میڈیا ہاوس روزانہ کم از کم دس منٹ کفالت یتیم کے لیے وقف کرے۔ مختلف مواقع پر خصوصی فیچرز کی اشاعت اور یتیم بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ اس طرح معاشرے میں اس مقدس کام کی اہمیت اجاگر ہو گی اور صاحب خیر کی بڑی تعداد اس کام کی سرپرستی کرنے لگے گی۔ 
سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت میں بھی ایک فیصد کوٹہ یتیم بچوں کے لیے وقف کیا جائے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور اپنے خاندانوں کے کفیل بن سکیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یتیم بچوں کے مسائل پر تسلسل کے ساتھ تقریبات کا انعقاد کیا جائے اور کفالت یتیم کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔وفاقی سطح پر کفالت یتیم کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نفاذ کیا جائے ۔ جو افراد یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہوں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

الخدمت فاونڈیشن کے قائدین اور رضاکاروں کے نام

عطاالرحمن چوہان

chohanpk@gmail.com
           الخدمت فاونڈیشن پاکستان خدمت خلق کے میدان کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ جس کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ الخدمت مقامی وسائل سے اہل وطن کے زخموں پر مرہم رکھنے کا نام ہے۔ الخدمت فاونڈیشن یتیم اور بے سہارا بچوں کے کفیل کا نام ہے۔ ملک بھر میں پینے کا صاف پانی بلا تخصیص فراہم کرنے کا نام ہے۔ الخدمت فاونڈیشن ذہین اور مستحق طلبہ و طالبات کے کفیل کا نام ہے۔ الخدمت ہر مشکل گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ، قدم بہ قدم رہنے کا نام ہے۔ چترال سے خضدار تک ہر قریے اور ہر شہر میں موجود الخدمت کے والینٹرز (رضاکار) خدائی خدمت گار ہیں، جو کسی سے کوئی صلہ اور کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔یہ وہ مردان خدا مست ہیں جودوسروں کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ تج دیتے ہیں۔ 2005 کا زلزلہ گواہ ہے کہ باغ (آزادکشمیر)کے رضا کار عثمان انور اپنی والدہ اور اپنے لخت جگر کو منوں مٹی کے حوالے کرکے اگلے ہی لمحے الخدمت فاونڈیشن کے کمیپ میں متاثرین زلزلہ کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ مظفرآباد میں شیخ عقیل الرحمن کو کون نہیں جانتا وہ اپنے جوان سال بیٹے کو دفن کرنے کے بعد گھر نہیں گئے بلکہ الخدمت فاونڈیشن کے ریلیف کیمپ میں متاثرین کی خدمت میں جت گئے اور کئی ماہ تک انہیں اپنے گھر اور بال بچوں کی خبر گیری کی فرصت نہیں ملی۔ میںزلزلے کی اطلاع ملتے ہیں میں اپنے آبائی گاوں باغ پہنچا، میرا گھر بھی پورے باغ کی طرح مٹی کا ڈھیر بنا ہوا تھا، والدین عمرے کی سعادت کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تھے۔ میرے بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی کھلے آسمان تلے آفٹرشاکس کے خوف میں لپٹےرمضان کے مشکل ترین روزے رکھ رہے تھے۔ اگلی صبح جب میں مین شاہراہ پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ میں تو ابھی اپنوں کے زخم بھی نہیں دیکھ پایا تھا اور نہ کسی دوسرے تک پہنچ پایا تھا، سڑک پر پہنچتے ہی دیکھتا ہوں کہ الخدمت فاونڈیشن کے کارکنان راولپنڈی سے ٹرکوں کی لمبی قطاروں پر لہراتے سبز ہلالی پرچموں کے سائے میں باغ کے متاثرین کی زخموں پر مرہم رکھنے کشاں کشاں باغ کی طرف روان دواں تھے۔ باغ پہنچا تویہ دیکھ کر مزید حیرت ہوئی کہ راولپنڈی کے ایک سنئیر اٹیمی سائنسدان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیما الخدمت ہسپتال ٹینٹوں میں قائم کرکے ڈاکٹروں کی ایک معقول تعداد کے ساتھ تڑپتے اور بلکتے مریضوں کی زخموں پر مرہم پٹی کررہے تھے۔ باغ کا اکلوتا سرکاری ہسپتال ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا اور سرکاری ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف اپنوں کی لاشیں سمیٹ رہے تھے،ایسے میں ملک کے مختلف حصوں سے ڈاکٹروں اورلیڈی ڈاکٹروں، سپشلسٹس اور پیرامیڈیکل سٹاف کے سینکڑوں رضاکارپیما، الخدمت ہسپتال کے خیموں میں مصروف کار تھے۔ تب باغ میں نہ لینڈ لائن فون کام کرتے تھے اور نہ موبائل فون کی سروس میسر تھی، یوں یہ سارے لوگ اپنے گھروں سے بہت دور، مواصلاتی رابطے میں بھی نہیں تھے۔ زلزلے کے جھٹکے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔کیا لوگ تھے، انسان نما فروشتے کہ جن کو اپنے گھروں کی فکر بھی نہ تھی۔ ابوعمیرزاہد دوسرے دن باغ پہنچے تھے اور پیما ہسپتال کے خیمے اپنے ہاتھوں سے نصب کررہے تھے، تیسرے دن ان کی اہلیہ بچوں کو کسی رشتہ دار کے پاس چھوڑ کر پیما ہسپتال میں خواتین مریضوں کی تیمارداری میں جت گئیں۔ ایسے لوگ اور ایسے مناظر چشم فلک کو خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔
یہی معاملہ آزادکشمیراور کے پی کے کے دیگرمتاثرہ علاقوں کا تھا۔ ملک بھر سے الخدمت فاونڈیشن کی مردان خدامست اپنے گھربار چھوڑ کر پہنچے اورراتون رات ریلیف کیمپ اور جدید ترین ہسپتال قائم کرکے وہ معجزہ دکھا گئے، ایک ایسی تاریخ اپنے خون جگر سے رقم کرگئے کہ رہتی دنیاتک ان کی داستان عشق ومستی رقم کی جاتی رہے گی۔تین ماہ تک دن اور رات کی تفریق کے بغیر مسلسل بحالی کی سرگرمیاں اور زخموں سے چوربچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کی مرہم پٹی، آپریشن اورعلاج معالجےمیں جتے ہوئے یہ لوگ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے۔
                آزادکشمیر میں الخدمت فاونڈیشن کی یہ پہلی اورتاریخ ساز سرگرمی تھی۔ جس نے اہل کشمیر کے قلوب واذہان میں انمٹ نقوش رقم کیے۔ میں آج پیما الخدمت ہسپتال باغ کے درودیوار کو دیکھتا ہوں تو مجھے برادرم ابوعمیر زاہد اور ان کی اہلیہ اس ہسپتال کے لیے خمیے گاڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کئی راتوں سے جاگنے کے باعث باہر نکلتی ہوئی آنکھیں دکھائی دیتی ہیں۔تڑپتے اور بلکتے انسانوں کی چیخ و پکار میں مرہم رکھنے والے وہ فرشتہ صفت انسان نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتے،جو رات کی تاریکی میں پتہ نہین کب اور کیسے وہاں پہنچ گئے تھے۔
            زلزلے میں یتیم ہوجانے والے معصوم بچوں کو جب غیر مسلم این جی اوز ہتھیانے لگیں تو قاضی حسین احمد ؒ نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے فوری طورپر ان یتیم کو سہارا دینے اور غیر مسلموں کی دسترس سے بچانے کے لیے ڈاکٹر حفیظ الرحمن (سابق صدرالخدمت فاونڈیشن پاکستان) کو ہدایت کی کہ ان بچوں کو الخدمت اپنی آغوش میں لینے کا اہتمام کرے۔ اس ویژن پر پہلا آغوش مرکز اٹک میں قائم ہوا، جس میں متاثرین زلزلہ یتیم بچوں کی پرورش کا آغاز کیا گیا۔ آج وہ بچے میڈیکل، انجنیئرنگ اور دیگرشعبہ جات میں ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
       یہ روداد تو بہت طویل ہے تاہم یہ مشاہدات محض تذکیر کے لیے رقم ہوئے۔ مجھے آج الخدمت فاونڈیشن سے وابستہ عہدیداروں، ہمہ وقتی کارکنان، رضا کاروں (والینٹرز) اور جزوی والینٹرز کی خدمت میں یہ عرض کرنا  ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک فرد بھی اپنے کوشش اور خواہش سے الخدمت سے وابستہ نہیں ہوا بلکہ ہمیں اپنے نظم نے کسی نہ کسی طور اس کام کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ نامزدگی رب العالمین کا احسان ہے کہ ہمیں ایک ایسے کام کے لیے چنا گیا ہے جو ہمارے رب کو بھی محبوب ہے اورہادی دوعالم، رحمت العالمین کو بھی محبوب ہے۔ یہ ہم سب کےلیے نعمت عظمی ہے۔ ہمیں اس وابستگی اور تعلق داری پر فخرہے اوراس کے ساتھ وابستگی کا ایک ایک لمحہ کامیاباں سمیٹنے کا نادر موقع ہے۔ نہ تو زندگی کا کوئی بھروسہ ہے اور نہ اس وابستگی کی کوئی مدت متعین ہے، اس لیے میسر وقت کے ایک ایک لمحےکو توشہ آخرت بنانےکے لیے مثالی رضاکار بننے کی کوشش کریں۔
          یاد رکھیے آج ہمیں جو الخدمت فاونڈیشن میسر آئی ہے،اس کا ہمیں کہیں تعارف نہیں کروانا پڑتا۔ ہمیں اس کی سرگرمیوں کی بھی  تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے پیش رو خدمت خلق کی ایسی مثالیں قائم کرگئے ہیں کہ بس نام ہی کافی ہے۔ اس سال آزادکشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ڈونرکانفرنسوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ الخدمت فاونڈیشن کو اہل وطن کا اعتماد حاصل ہے۔ابھی تو ہم نے اپنی آبادی کے ایک فیصدتک رسائی حاصل نہیں کی تب بھی انہوں نے ہماری جھولیاں اپنے مال، اپنے اعتماد اور اپنی محبتوں سے بھر دی ہیں۔
       یاد رکھیے۔ اب ہمارے امتحان کا آغاز ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی تجوریاں ہمارے حوالے کردی ہیں، وہ ہم سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر مشکل مرحلے میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کے ہر یتیم کو ہماری آغوش میں دیکھنے کے متمنی ہیں، ہرضروت مند اور ہر مستحق کو مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ٹریفک کے اژدھام سے آفاتی سماوی تک ہر مرحلے پر وہ ہماری موجودگی چاہتے ہیں۔
       یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ ہماری صلاحیتوں، ہماری کمٹمنٹ، ہمارے اخلاص اورہماری کارکردگی کا امتحان ہے۔ ہمیں محض کام نہیں کرنا بلکہ بہترین کام کرنا ہے۔ اس بہترین کے لیے اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنا ہے، اپنی پسند اور ناپسند کو مٹانا ہے، اپنے مزاجوں اور اپنے رویوں کو بدلنا ہے۔ اپنی استعدادکار میں برق رفتاری سے اضافہ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے متعلقہ شعبوں میں ایکسیلینس پیداکرنا ہے۔ اپنےکاموں میں شفافیت کی مثال بننا ہے۔ ہمیں ایسے افراد کے ساتھ ٹیم بن کر چلنے کا سلیقہ سیکھنا ہے جن کو ہم ایک لمحہ بھی شاید برداشت نہ کرسکتے ہوں۔ ہمیں دوسروں کی کارکردگی کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینی ہے۔ ہمیں قوم کے اعتماد پر پورا اترنا ہے ۔ ایک ایسی قوم جو کرپٹ مافیا کے چنگل میں بال بال پھنسی ہوئی ہے ۔ جس کا بچہ بچہ غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ جس کے غریب کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ دوائی کے ایک گولی ۔ جن کے دکھوں کی فہرست مرتب کرنا محال ہے۔ جو سود کے بے رحم اقتصادی شکنجے میں کس دئیے گئے ہیں، جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ جہاں ظلم کی اندھیر ی رات کے سیاہ بادلوں نے امید اور آس کو مسل کر رکھ دیا ہے۔  جس کی حاملہ عورتیں زچگی کے ہاتھوں موت سے ہمکنا ر ہو رہی  ہیں ۔ جس کے بچے کم خوراک اور صحت کی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر قصائیوں کی طرح مریضوں کا خون چوس رہے ہیں اور ادویات کے نام پر موت کے نسخے تجویز کیے جارہے ہیں۔ جہاں ملٹی نیشنل ادویات ساز کمپنیاں موت کی سوداگری کررہی ہیں۔ جہاں ملاوٹ مافیا خوراک کے خول میں موت کا سامان باہم پہنچا رہا ہے۔ جہاں انصاف بکتا اور ظلم کو فروغ دیا جارہا ہے۔
          مایوسی اور ناامیدی کے اس بیابان جنگل میں امید کی کرنیں  روشن کرنے، لڑکھڑاتی انسانیت کو سہارا دینے اور اپنے ہم وطنوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ اس سعادت کو مقصد زندگی بنا لینا ہماری ضرورت ہے۔ انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کرنا، جدید ترین مہارتوں سے آراستہ ہونا اور ابلاغ کی ہر نوع کو اپنے استعمال میں لاکر ایک پرامید زندگی کی بنیاد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ظلم کے سیاہ بادلوں سے ایک نئی  اور خوشگوارصبح  کا پیغام بن کر ہر دل پر دستک دینا اور قوم کااعتماد بحال کرکے ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل ہمارا ہدف ہے۔ خود کو اس کے لیے تیار کیجیے۔ اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ کل آنے والی نسلیں ہم پر فخر کرسکیں۔

مرہم۔۔۔۔۔۔ عطاالرحمن چوہان

دنیا کے ہر فرد کو توجہ، ہمدردی اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان جتنابڑا اور مالدار ہوگا، اس کو اتنی ہی زیادہ توجہ، ہمدردری اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ایسا سودا ہے جو مقام، مرتبے اور پیسے سے نہیں ملتا بلکہ مالِ بدل ہے، آپ جتنی محبت، ہمدردی اور تعاون دوسروں کو دیں گے اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو اس سے کہیں زیادہ محبت، ہمدردی اور تعاون حاصل ہوگا۔ یہ معاملہ صرف مثبت ہی نہیں بلکہ منفی بھی ایسا ہی ہے، جتنی نفرت، بیگانگی، دھوکہ اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے گا، وہ گھوم پھر کر واپس آپ کی طرف پلٹ آئے گی۔اس کا تعلق مذہب اور عقیدے سے نہیں بلکہ انسانیت سے ہے۔مسلمانوں کے لیے یہ معاملہ دُہرے فائدے کا ہے، دنیا میں بکھیری جانے والی محبتیں، خوشیاں اور سہولتیں تو ہر فرد کو اس کی زندگی میں ہی واپس مل ہی جاتی ہیں لیکن مسلمان اپنے عقیدے کی بدولت اس سے کئی گنا زیادہ منافع حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے بھی محفوظ کرلیتا ہے۔یہ اتنا پکا سودا ہے کہ اسے رب العالمین نے

اپنے ذمے قرض قرار دیا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے لوگ ایثار پیشہ ہیں۔ ایثار، قربانی، صدقہ اورخیرات صرف مال کی صورت میں ہی نہیں دیا جاتا بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ مال تو وہی دے گا، جو صاحب مال ہے لیکن محبت کے دو بول ہر فرد دے سکتا ہے جس کے جبڑوں کے درمیان زبان کی نعمت میسر ہے،، دست شفقت تو ہر وہ فرد بڑھا سکتا ہے، جس کو اللہ نے دو یا کم از کم ایک ہاتھ سے نواز رکھا ہے۔ محبت بھری نگاہ ہر وہ فرد عطیہ کرسکتا ہے جسے اللہ نے بینائی کی نعمت سے ہمکنار کررکھا ہو، بھلے وہ ایک ہی آنکھ ہو۔
تیمارداری کی اہمیت وہی جانتا ہے جو کچھ دن علالت میں گزار چکا ہو۔فاتحہ خوانی کی اہمیت اس سے پوچھیے،جس کا کوئی پیارا موت کے منہ میں چلا گیا ہو اور کس، کس نے اظہار افسو س کیا، کس نے اس موقع پر ہمدردی کے دو بول بولے، کون اس گھڑی کو بھلا سکتا ہے۔شفقت کی نگاہ اور سر پر ہاتھ پھیرنے، گلے لگانے اور پیار کرنے کی قیمت اس سے پوچھیے جوماں یا باپ کی نعمت سے محروم ہو۔ راستہ بھول جانے والے کو منزل کی نشان دہی کردینے میں کیا جاتا ہے، کسی پریشان حال سے خیریت پوچھنے پر کتنے دام لگتے ہیں۔ کسی کے آنسو پونچ لینے میں کیا خرچ ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ رب کی عطا کردہ نعمتوں کی زکوا? ہے۔ یہ دراصل اپنے لیے خوشیاں، محبتیں، سہولتیں اور آسانیاں خریدنے کا سودا ہے۔کیا کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ گھس جائے گا؟ کیا کسی کو اچھائی کی دو باتیں کہنے سے زبان کمزور پڑ جائے گی؟ کیا کسی بیمار کے سرہانے کھڑے ہوکر حوصلہ دینے سے ہمارے جسم میں قوت کم ہو جائے گی؟بالکل اسی طرح دوسروں کے لیے دئیے گئے مال میں سے بھی ایک پائی کم نہیں ہوتی، بلکہ اضافے کا ہی سبب بنتی ہے۔
ہاں اگر آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال بھی ہے تو اس کا اڑھائی فیصد یا اس سے کچھ زیادہ دینے سے مال میں برکت ہوگی، اضافہ ہوگا بلکہ حیران کن اضافہ ہوگا۔ نقد منافع بھی حاصل ہوگا اور حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے رب العالمین کے نام قرض بھی واجب ہو جائے گا۔ ایسا رب جس سے بڑھ کرکوئی ایفائے عہد کر ہی نہیں سکتا اور ایسا رب جو اپنے ذمہ قرض کا ہزار گنا بلکہ کئی ہزار گنا بڑھا کر دینے کر دے گا۔
خیر کو عام کرنے کے لیے غریب، لاچار اور بے بس کا انتظار نہ کیجیے، مذہب، مسلک، برادری اور علاقے کی تفریق میں نہ جائیے، ہر انسان اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ خیر کو عام کیجیے، بے دریغ کیجیے، ان گنت کیجیے، بے شمار کیجیے، چھپ کر کیجیے، سرعام کیجیے، اپنوں کے لیے، غیروں کے لیے، انسانوں کے لیے، جانوروں کے لیے۔ یہ سودا کردیجیے، منافع صحت، سلامتی، صبر، شکر، حوصلے، عزم، مال، دولت اور عزت و توقیر کی صورت میں ملے گا اور بے حساب ملے گا۔
بس بات یقین اور اعتماد کی ہے۔ اپنے ہاتھ میں، اپنی نگاہ میں، اپنے قلب میں اور اپنی جیب میں ہمیشہ مرہم رکھیے، جب اور جہاں محسوس کریں، اسے پیش کیجیے۔آخری بات حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو ضرورت مندوں کے لیے محنت کرتا ہے اس کا اجر جہاد فی السبیل اللہ جیسا ہے اور جو ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتا ہے اس کی ضرورتیں اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔

چوہدری رحمت علی ؒ

برادر محترم تنویر قیصر شاہد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مزاج گرامی۔ امید ہے بخیر ہوں گے۔
 میں آپ کے کالم طویل عرصے سے پڑھتا آرہا ہوں۔اسلام اور پاکستان کے ساتھ آپ کی وابستگی میرے اور آپ کے درمیان مضبوط رشتہ ہے۔ 21 اپریل کو یوم اقبال کے تناظر میں لکھے گئے کالم میں آپ نے پاکستان کا نام رکھنے کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی ؒ نے رکھا، گول میز کانفرنس کے موقع پر ناو آر نیور Now or Never میں پاکستان کا نام لکھ کر الگ ملک کے مطالبے پر زور دیا۔اس سے پہلے پاکستان کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ ممتاز محقق کے۔کے عزیز نے لفظ پاکستان کے بارے میں تفصیلی بحث کی اور یہ بھی لکھا کہ چوہدری رحمت علی نے استخارے کے بعد پاکستان کا نام فائنل کیا۔

23 مارچ 1940 کے اجلاس مسلم لیگ منعقدہ منٹو پارک لاہور میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسی نسبت سے چوہدری رحمت علی کو قرارداد پاکستان پیش کرنے کے لیے لاہور مدعو کیا، جو بوجوہ شریک نہ ہوسکے تاہم وہ لندن سے کراچی تشریف لے آئے تھے۔ چوہدری رحمت علیؒ نے صرف پاکستان کا نام نہیں رکھا بلکہ برصغیر کو کے تمام مسلم علاقوں کے لیے الگ الگ نام تجویز بھی کیے۔ آپ تحریک پاکستان کے لیے تادم مرگ جدوجہد بھی کرتے رہے۔ مختلف کتابیں بھی تالیف کیں، جن میں پاکستان کے مطالبے کے بارے میں دلائل دیے۔ اخبارات میں مضامین لکھتے رہے، پمفلٹس کی صورت میں اپنا پیغام عام کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان تشریف بھی لائے۔
اس ساری جدوجہد کے دوران تو کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ نام کسی اور نے رکھا ہے۔ آج ستر سال گزرنے کے بعد ایک لابی اس معاملے کو متنازعہ بنانا چاہتی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا محب وطن دانشور بھی اس تاریخی حیقیقت پر انگشت نمائی کررہا ہے۔ ایک ایسے محسن کو متنازعہ بنا رہا ہے جس نے پوری زندگی اس قوم کی آزادی کے لیے قربان کردی۔
انہوں نے پاکستان سے کچھ نہیں لیا، جس وطن کے لیے پوری زندگی وقف کی، اس میں ایک کنال زمین تک کا مطالبہ نہیں کیا۔ پاکستان پر قابض جاگیرداروں نے چوہدری رحمت علیؒ کا جسد خاکی تک پاکستان نہیں لانے دیا، وہ دیار غیر میں مدفون ہے۔ آپ سے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آپ عدل کے علمبردار ہیں، آپ چوہدری رحمت علی کی خدمات کے اعتراف کے لیے حکومت پر زور دیں۔ چوہدری رحمت علی کے ساتھ ریاستی سطح پر ظلم ہوا ہے، اس قوم کو اپنے ہیروکو اس کی خدمات کے مطابق مقام اور مرتبہ دلوانا ہے۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے کتے اور گھوڑے پال کر قوم کی مخبری کی انہوں نے پاکستان سے مراعات لیں، جائیدادیں لیں۔ ان جائیدادوں کی آمدن سے انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آج تک قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ قائداعظم کی خدمات سے بھی انکار کردیں گے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کو تو کئی پاگلوں نے متنازعہ بنانے کی پوری مزموم سازشیں کیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ آپ انصاف کیجیے کہ جس اقبالؒ کے فلسفے سے دنیا استفادہ کررہی ہے، ہمارے نظام تعلیم میں اس کا کتنا حصہ شامل ہے۔ ہمارے ملک پرقابض صیہونی لابی قرآن، حدیث کے علاوہ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر قائدین تحریک آزادی کو نصاب تعلیم سے ہی نہیں بلکہ قوم کے حافظے سے بھی محو کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں آپ جیسے احباب سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار ادا کریں گے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ ، علامہ اقبالؒ اورچوہدری رحمت علیؒ جیسی جلیل القدر شخصیات تو اہل پاکستان کا سرمایہ ہیں، جنہوں نے اپنا تن ،من اور دھن پاکستان کی تعمیر میں قربان کیا۔ آج نظریاتی، جغرافیائی ،اخلاقی اور مالی طور پر پاکستان کو نوچا جارہا ہے۔ اس کے نظریہ کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، اس کی سرحدوں کو تبدیل کردیا گیا ہے اور مزید تقسیم در تقسیم کی سازشیں تیار کی جارہی ہیں، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں قومی پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ وقت ہے کہ ہم متفق علیہ موضوعات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں۔ وہ بھی سنی سنائی اور بے بنیاد کہاوتوں کی بنا پر۔ہاں کچھ لوگوں کا تو روزگار ہی یہی ہے۔ انہیں تو یہ سب کچھ کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، آپ جس فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو بھوک برداشت کرکے اس ملک کی حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔
میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ چوہدری رحمت علی کی حیات و خدمات پر تفصیلی کالم لکھ کر اس کا کفارہ ادا کریں گے۔
والسلام
آپ کا بھائی
عطاالرحمن چوہان

چوہدری رحمت علی رحمتہ اللہ علیہ خالق اسم پاکستان کو متنازعہ نہ بنائیں


برادر محترم تنویر قیصر شاہد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مزاج گرامی۔ امید ہے بخیر ہوں گے۔
میں آپ کے کالم طویل عرصے سے پڑھتا آرہا ہوں۔اسلام اور پاکستان کے ساتھ آپ کی وابستگی میرے اور آپ کے درمیان مضبوط رشتہ ہے۔ 21 اپریل کو یوم اقبال کے تناظر میں لکھے گئے کالم میں آپ نے پاکستان کا نام رکھنے کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی ؒ نے رکھا، گول میز کانفرنس کے موقع پر ناو آر نیور Now or Never میں پاکستان کا نام لکھ کر الگ ملک کے مطالبے پر زور دیا۔اس سے پہلے پاکستان کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ ممتاز محقق کے۔کے عزیز نے لفظ پاکستان کے بارے میں تفصیلی بحث کی اور یہ بھی لکھا کہ چوہدری رحمت علی نے استخارے کے بعد پاکستان کا نام فائنل کیا۔
23 مارچ 1940 کے اجلاس مسلم لیگ منعقدہ منٹو پارک لاہور میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسی نسبت سے چوہدری رحمت علی کو قرارداد پاکستان پیش کرنے کے لیے لاہور مدعو کیا، جو بوجوہ شریک نہ ہوسکے تاہم وہ لندن سے کراچی تشریف لے آئے تھے۔ چوہدری رحمت علیؒ نے صرف پاکستان کا نام نہیں رکھا بلکہ برصغیر کو کے تمام مسلم علاقوں کے لیے الگ الگ نام تجویز بھی کیے۔ آپ تحریک پاکستان کے لیے تادم مرگ جدوجہد بھی کرتے رہے۔ مختلف کتابیں بھی تالیف کیں، جن میں پاکستان کے مطالبے کے بارے میں دلائل دیے۔ اخبارات میں مضامین لکھتے رہے، پمفلٹس کی صورت میں اپنا پیغام عام کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان تشریف بھی لائے۔
اس ساری جدوجہد کے دوران تو کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ نام کسی اور نے رکھا ہے۔ آج ستر سال گزرنے کے بعد ایک لابی اس معاملے کو متنازعہ بنانا چاہتی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا محب وطن دانشور بھی اس تاریخی حیقیقت پر انگشت نمائی کررہا ہے۔ ایک ایسے محسن کو متنازعہ بنا رہا ہے جس نے پوری زندگی اس قوم کی آزادی کے لیے قربان کردی۔
انہوں نے پاکستان سے کچھ نہیں لیا، جس وطن کے لیے پوری زندگی وقف کی، اس میں ایک کنال زمین تک کا مطالبہ نہیں کیا۔ پاکستان پر قابض جاگیرداروں نے چوہدری رحمت علیؒ کا جسد خاکی تک پاکستان نہیں لانے دیا، وہ دیار غیر میں مدفون ہے۔ آپ سے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آپ عدل کے علمبردار ہیں، آپ چوہدری رحمت علی کی خدمات کے اعتراف کے لیے حکومت پر زور دیں۔ چوہدری رحمت علی کے ساتھ ریاستی سطح پر ظلم ہوا ہے، اس قوم کو اپنے ہیروکو اس کی خدمات کے مطابق مقام اور مرتبہ دلوانا ہے۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے کتے اور گھوڑے پال کر قوم کی مخبری کی انہوں نے پاکستان سے مراعات لیں، جائیدادیں لیں۔ ان جائیدادوں کی آمدن سے انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آج تک قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ قائداعظم کی خدمات سے بھی انکار کردیں گے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کو تو کئی پاگلوں نے متنازعہ بنانے کی پوری مزموم سازشیں کیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ آپ انصاف کیجیے کہ جس اقبالؒ کے فلسفے سے دنیا استفادہ کررہی ہے، ہمارے نظام تعلیم میں اس کا کتنا حصہ شامل ہے۔ ہمارے ملک پرقابض صیہونی لابی قرآن، حدیث کے علاوہ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر قائدین تحریک آزادی کو نصاب تعلیم سے ہی نہیں بلکہ قوم کے حافظے سے بھی محو کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں آپ جیسے احباب سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار ادا کریں گے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ ، علامہ اقبالؒ اورچوہدری رحمت علیؒ جیسی جلیل القدر شخصیات تو اہل پاکستان کا سرمایہ ہیں، جنہوں نے اپنا تن ،من اور دھن پاکستان کی تعمیر میں قربان کیا۔ آج نظریاتی، جغرافیائی ،اخلاقی اور مالی طور پر پاکستان کو نوچا جارہا ہے۔ اس کے نظریہ کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، اس کی سرحدوں کو تبدیل کردیا گیا ہے اور مزید تقسیم در تقسیم کی سازشیں تیار کی جارہی ہیں، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں قومی پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ وقت ہے کہ ہم متفق علیہ موضوعات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں۔ وہ بھی سنی سنائی اور بے بنیاد کہاوتوں کی بنا پر۔ہاں کچھ لوگوں کا تو روزگار ہی یہی ہے۔ انہیں تو یہ سب کچھ کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، آپ جس فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو بھوک برداشت کرکے اس ملک کی حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔
میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ چوہدری رحمت علی کی حیات و خدمات پر تفصیلی کالم لکھ کر اس کا کفارہ ادا کریں گے۔
والسلام
آپ کا بھائی
عطاالرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com
03005515140

99 انو کھی اور دلچسپ باتیں

99 انو کھی اور دلچسپ باتیں

آج میں اپنے پیج کے دوستوں کو 99 انوکھی اور منفرد باتیں بتانے جارہا ہوں ۔ جن میں سے آپ نے پہلے بھی کچھ پڑھ رکھی ہوں گی اور کچھ آپ کے لئے نئی ہوں گی ۔جن کو پڑھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے اوریہ معلومات آپ کے علم میں اضافے کا باعث بھی بنیں گی۔


1۔قطبِ شمالی کے آسمان سے سال کے 186 دن تک سورج مکمل طور پر غائب رہتا ہے

2۔سونے کی جتنی زیادہ کوشش کریں نیند آنے کے چانس اتنے ہی کم ہیں۔

3۔کی بورڈ کی آخری لائن میں موجود بٹنوں سے آپ انگلش کا کوئی لفظ نہیں لکھ سکتے ۔

4۔انسانی دماغ ستر فیصد وقت پرانی یادوں یا مستقبل کی سنہری یادوں کے خاکے بنانے میں گزارتا ہے۔

5۔پندرہ منٹ ہنسنا جسم کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا دو گھنٹے سونا۔

6۔کسی بھی بحث کے بعد پچاسی فیصد لوگ ان تیزیوں اور اپنے تیز جملوں کو سوچتے ہیں جو انھوں نے اس بحث میں کہے ہوتے ہیں۔

7۔ A nut for a jar of tuna 

ایسا جملہ ہے جس میں اسے دائیں سے پڑھ لیں یا بائیں سے ۔ایک ہی بات بن سکتی ہے صرف کچھ سپیس کو درست کرلیں تو۔

8۔ فلاسفی میں ایک لمحے کا مطلب ہوتا ہے نوے سیکنڈ

9۔سردی کی کھانسی میں چاکلیٹ کھانسی کے سیرپ سے پانچ گنا زیادہ بہتر اثر دکھاتی ہے۔لہٰذا سردی والی کھانسی میں چاکلیٹ کھایا کریں

10۔جتنی مرضی کوشش کر لیں جو مرضی کر لیں آپ یہ یاد نہیں کر سکتے آپ کا خواب کہاں سے شروع ہوا تھا۔

11۔کوئی بھی جذباتی دھچکا پندرہ یا بیس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا اس کے بعد کا جذباتی وقت آپ کی “اوور تھنکنگ ” یعنی اس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے آپ خود کو زخم لگاتے ہیں

12۔ عام طور پر آپ اپنے آپ کو آئینے میں حقیقت سے پانچ گنا زیادہ حسین دیکھتے ہیں۔ یا سمجھتے ہیں۔

13۔ سائنس کے مطابق نوے فیصد لوگ اس وقت گھبرا جاتے ہیں جب انھیں یہ میسج آتا ہے

“کچھ پوچھوں آپ سے”

Can I Ask you a question

میں بھی اکثر آپ کا یہ مسیج پڑھ کر چونک سا جاتا ہوں۔کہ معلوم نہیں کیا پوچھنا چاہتا ہے۔

14۔ زمین سے سب سے نزدیک ستارہ سورج ہے جو زمین سے 93 ملین میل دور واقع ہے

15۔ مکھی ایک سیکنڈ میں 32 مرتبہ اپنے پر ہلاتی ہے

16۔ دنیا کے 26 ملکوں کو سمندر نہیں لگتا

17۔ مثانے میں پتھری کو توڑنے کا خیال سب سے پہلے عرب طبیبوں کو آیا تھا

18۔ گھوڑا، بلی اور خرگوش کی سننے کی طاقت انسان سے زیادہ ہوتی ہے، یہ کمزور سے کمزور آواز سننے کے لیے اپنے کان ہلا سکتے ہیں

19۔تیل کا سب سے پہلا کنواں پینسلوینیا امریکا میں 1859ء میں کھودا گیا تھا

20۔ کچھوا، مکھی اور سانپ بہرے ہوتے ہیں

21۔ تاریخ میں القدس شہر پر 24 مرتبہ قبضہ کیا گیا

22۔ دنیا کا سب سے بڑا پارک کنیڈا میں ہے

23۔ہٹلر برلن کا نام بدل کر جرمینیا رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا

24۔ دنیا میں سب سے زیادہ پہاڑ سوئٹزر لینڈ میں پائے جاتے ہیں

25۔دنیا کے سب سے کم عمر والدین کی عمر 8 اور 9 سال تھی، وہ 1910ء میں چین میں رہتے تھے۔

26۔ تمام پھلوں اور سبزیوں کی نسبت تیز مرچ میں وٹامن سی کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

27۔اللہ تعالی نے سب سے پہلا دن ایتوار (اتوار) بنایا تھا۔( بائبل میں ایسا ہی لکھا ہے اور شائد قرآن اور حدیث اس بارے میں خاموش ہے۔مجھے لگتا ہے جمعہ پہلا دن تھا۔واللہ اعلم)

28-فرعونوں کے زمانے کے مصر میں ہفتہ 10 دن کا ہوتا تھا

29۔تتلی کی چکھنے کی حس اس کے پچھلے پاؤں میں ہوتی ہے

30-دنیا کی سب سے طویل جنگ فرانس اور برطانیہ کے درمیان ہوئی تھی، یہ جنگ 1338ء کو شروع ہوئی تھی اور 1453 کو ختم ہوئی تھی، یعنی یہ 115 سال جاری رہی تھی

31-آپ خواب میں صرف ان چہروں کو دیکھتے ہیں جنھیں آپ جانتے ہیں۔ جبکہ بعض ماہرین اس بات کو رد بھی کرتے ہیں۔کہ کبھی کبھار انجانے چہرے بھی خواب میں نظر آتے ہیں لیکن ہم ان کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں۔ یہ ہی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔

32۔ٹھنڈا پانی گرم پانی سے زیادہ ہلکا ہوتا ہے۔ کیمسٹری

33۔دنیا کے ہر شخص کی اوسط فون کالز کی تعداد 1140 ہے

34-وہیل کی اوسط عمر 500 سال ہوتی ہے۔

35-فرانس کے اٹھارہ بادشاہوں کا نام لوئیس تھا

36-دنیا پر سب سے پہلا گھر کعبہ معظمہ ہی بنایا گیا تھا۔

37-ربڑ کے زیادہ تر درخت جنوب مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں

38-اگر موٹے گلاس میں گرم مشروب ڈال دیا جائے تو پتلے گلاس کی نسبت اس کے ٹوٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں

39-انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے جسم میں 300 ہڈیاں ہوتی ہیں جو بالغ ہونے تک صرف 206 رہ جاتی ہیں۔ چھوٹی ہڈیاں مل کر بڑی ہڈیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

40-اٹھارویں صدی میں کیچپ بطور دواء استعمال ہوتا تھا

41۔ کوے کی بھی اوسط عمر پانچ سو سال تک ہوتی ہے۔

42۔اٹھارہ مہینوں کے اندر دو چوہے تقریباً 1 ملین اپنے ساتھی پیدا کر لیتے ہیں۔

43۔ انسانوں کے برعکس بھیڑ کے چار معدہ ہوتے ہیں اور ہر معدہ انہیں خوراک ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔

50۔ مینڈک کبھی بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا، یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔

51۔ شارک کے جسم میں کوئی ایک بھی ہڈی نہیں ہوتی۔

52 ۔جیلی فش کے پاس دماغ نہیں ہوتا۔

53۔ پینگوئن اپنی زندگی کا آدھا حصہ پانی میں گزارتے ہیں اور آدھا زمین (خشکی) پر

54۔ گلہری پیدا ہوتے وقت اندھی ہوتی ہے۔

55۔ کموڈو، چھپکلی کی لمبی ترین قسم ہے۔ جس کی لمبائی تقریباً 3 میٹر تک ہوتی ہے۔

56۔کینگرو پیچھے کی جانب نہیں چل سکتے۔

57۔ دنیا میں سب سے بڑا انڈہ شارک دیتی ہے۔

58۔دنیا میں سب سے ذہین جانور ایک پرندہ ہے، جسے انگریزی میں گرے پیرٹ اور اردو میں خاکستری طوطا کہا جاتا ہے۔

59۔ دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل روزانہ اربوں انسانوں کو ان کی مطلوبہ معلومات اور ویب سائٹس ڈھونڈ کر دیتا ہے۔ یہ سرچ انجن اسقدر پیچیدہ اور بڑی مقدار میں ڈیٹا اور معلومات کو اربوں انسانوں تک پہنچاتا ہے کہ اس کی طاقت اور رفتار کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

60۔ پینگوئین ایک ایسا جانور ہے جو نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرسکتا ہے۔

61۔ گولڈ فش کو اگر کم لائٹ میں پکڑا جائے تو یہ اپنا رنگ کھودیتی ہے۔

62۔ جیلی فش کے سر کو Bell کہا جاتا ہے۔

63۔ ایک مرغی سال میں اوسطاً 228انڈے دیتی ہے۔

64۔ بلیاں اپنی زندگی کا 66 فیصد حصہ سو کر گزارتی ہیں۔

65۔ جھینگے کا خون بیرنگ ہوتا ہے لیکن جب یہ آکسیجن خارج کرتا ہے تو اسکا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔

66۔ بیل نیچے کے بجائے اوپر کی طرف زیادہ تیزی سے دوڑتے ہیں۔

67۔ ہاتھی کے دانتوں کو دنیا کے سب سے بڑے دانت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

68۔ دنیا کے سب سے چھوٹے لال بیگ کا سائز صرف 3 ملی میٹر ہے۔

69۔ شارک کے دانت ہر ہفتے گرتے ہیں۔

70۔ دریائی گھوڑا ایک ہی وقت میں دو مختلف سمت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

71۔ برفانی ریچھ 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے اور ہوا میں 6فٹ کی بلندی تک چھلانگ لگاسکتا ہے۔

72۔ ایک ٹائیگر کی دم اس کے جسم کی کل لمبائی کی ایک تہائی تک بڑھ سکتی ہے۔

73۔ مچھلی کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کیلئے اپنی دم اور پنکھ استعمال کرتی ہے۔

74۔ ڈریگن فلائی کی 6 ٹانگیں ہوتی ہیں لیکن وہ پھر بھی نہیں چل سکتی۔

75۔ ایسی سفید بلیاں جو نیلی آنکھوں والی ہوتی ہیں عام طور پر وہ بہری ہوتی ہیں۔

76۔ افریقی ہاتھیوں کے 4 دانت ہوتے ہیں۔

77۔ زرافہ جمائی نہیں لے سکتا۔

78۔ ایک گونگا مستقل 3 سال سونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

79۔دنیا میں صرف ایک دن میں اوسطا 55ارب مشروبات استعمال کی جاتی ہیں 

80۔ شاہد آفریدی نے جب تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بنایا تو وہ بھارتی سٹار سچن ٹنڈولکر کا بیٹ استعمال کررہے تھے۔

81۔کیا آپ اللہ کی قدرت کے مظہر” انسانی جسم “کے متعلق یہ حیرت انگیز بات جانتے ہیں۔کہ انسانی جسم میں موجود خون کی نالیوں کی مجموعی لمبائی 60 ہزارمیل کے برابر ہے۔

82۔سام سانگ کوریائی زبان کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے سام اورسانگ ۔سام کا مطلب” تین” اور سانگ کا مطلب “ستارے “ہے۔ یعنی تین ستارے

83۔سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریبا11 کلومیڑ (10923میڑ )ہے

84۔دنیا میں بانوے فیصد لوگ گوگل کا استعمال اپنے اسپیلنگ چیک کرنے کے لئے کرتے ہیں۔اور پاکستان میں 80 فیصد لوگ گوگل کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ پتہ چل سکے انٹرنیٹ چل رہا ہے کہ نہیں۔ 

85۔مینڈک کی زبان میں تین گنا بڑا شکار دبوچنے کی طاقت ہوتی ہے

86۔ اب تک کا خطرناک ترین ہوائی حادثہ 1977 میں ہوا ۔اور اس حادثے میں583 لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔

87۔افریکی ہاتھی دنیا کا تیسرا سب سے وزنی جانور ہے۔۔ اس کا وزن 13000 کلو گرام تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

88 ۔ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی صرف پانچ ممالک چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں رہتی ہے

89۔ نابینا افراد ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے۔

90۔ مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔

91۔ الو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔

92۔کیا آپ بحیرہ مردار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔

93۔ پاکستان کا “مکلی قبرستان، ٹھٹھہ ” جو کے مسلمانوں کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔جہاں ایک ہی جگہ پر لاکھوں مسلمان دفن ہیں ۔یہ قبرستان 6 میل کے طویل ایریا میں پھیلا ہوا ہے۔

94۔عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 2009 میں جاری کیا تھا جو کہ 100ٹریلین ڈالر یعنی100 کھرب زمبابوے ڈالرکا تھا۔ 

95۔ کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔

96۔کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔ 

97۔بچھو چھے دن تک اپنا سانس روک سکتا ہے۔بچھو پانی کی تہہ میں سانس نہیں لے سکتا لہذا وہ اپنا سانس روک لیتا بھلے اسے چھے دن وہاں پڑا رہنے دو۔ وہ سانس نہیں لے گا لیکن زندہ رہے گا۔

98۔ایک روسی خاتون “مسٹرس وسیلائیو “کے ایک ہی خاوند سے چالیس سال کے دورانیے میں یعنی سنہ1725ء سے 1765ءکے عرصہ کے دوران 69 بچے پیدا ہوئے

99۔مراکش کے سلطان إسماعيل بن الشريف ابن النصر جس نے مراکش پر 1672ء سے 1727ء تک 55 سال حکومت کی تھی ۔ اس کے مختلف بیویوں اور باندیوں (کنیزوں) سے 525 بیٹے اور 342 بیٹیاں تھیں۔


میں آج آپ سے یہ سوال نہیں کروں گا کہ آپ کو کونسی معلومات سب سے زیادہ دلچسپ و عجیب لگی۔


بس آپ خود ہی بتادیں؟

40 طرح کا صدقہ..

40 طرح کا صدقہ…


1. دوسرے کو نقصان پہونچانے سے بچنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]


2. اندھے کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]


3. بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]


4. گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]


5. کمزور آدمی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]


6. راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


7. مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]


8. اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]


9. بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]


10. لا الہ الا الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


11. سبحان الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


12. الحمدلله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


13. الله اکبر کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


14. استغفرالله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


15. نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


16. برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]


17. ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 55]


18. دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]


19. کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے ۔ [بخاری: 2518]


20. اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2589]


21. نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]


22. راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]


23. خود کھانا صدقہ ہے۔ [نسائی – کبری: 9185]


24. اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی – کبری: 9185]


25. اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی – کبری: 9185]


26. اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی – کبری: 9185]


27. کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [نسائی: 253]


28. اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]


29. پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 


30. اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 


31. ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ [ابو داﺅد: 5243]


32. آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے۔ [بخاری – تاریخ: 259/3]


33. تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے۔ [مسلم:  1553]


34. بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی – شعب: 3367] 


35. پانی پلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی – شعب: 3368]


36. دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔ [ابن ماجہ: 3430]


37. کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1009]


38. گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]


39. ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]


40. علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے۔ [ابن ماجہ: 243]


جزاکم الله خیرا

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ

فزکس کی کلاس میں ایک دن سر بتانے لگے کہ فوجی جب مارچ کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران راستے میں کوئی پُلفزکس کی کلاس میں ایک دن سر بتانے لگے کہ فوجی جب مارچ کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران راستے میں کوئی پُل آجاۓ تو انہیں اپنا ڈسپلن توڑتے ہوئے مارچ ختم کر کے نارمل انداز میں وہ پُل پار کرنے کو کہا جاتا ہے . اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب مارچ کرنے والے انداز میں تمام فوجی ایک ہی وقت میں اپنا پاؤں زمین پر مارتے ہیں تو اس سے انرجی کا ایک بہت بڑا بلاک بنتا ہے جس کی سکت اس پُل کے پارٹیکلز نہیں برداشت کر پاتے لہٰذا بہت امکان ہوتا ہے کہ وہ پُل ڈھے جاۓ گا . 
اس پر میں نے سوال پوچھا کہ سر کتنے فوجی اس طرح کریں تو پل گرے گا ؟ 
سر نے جواب دیا کہ یہ پل کی ساخت اور مٹیریل پر منحصر کرتا ہے . اس پر میں نے دوسرا سوال پوچھا کہ اسی پُل پر گاڑیاں اور دیگر افراد بھی تو چل رہے ہوتے ہیں تب یہ پُل کیوں نہیں ڈھے جاتا ؟ 
سر نے جواب دیا کہ وہ با یک وقت ایک ہی طرح کی انرجی بلاک نہیں بنا رہے ہوتے لہٰذا انکی بنائی گئی انرجی پُل کی وائبریشن ضائع کردیتی ہے لہٰذا ایک لاکھ افراد کا پُل پر چلنا نقصان دہ نہیں ہوتا پر 500 مارچ کر کے جاتے ہوئے فوجی اس پُل کے لئے زیادہ نقصان دہ ہیں کیوں کہ انکے قدم اور انرجی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں .
یہ بات مجھے بہت مشکل سے سمجھ لگی تھی پر جب قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی تو سمجھ آیا کہ اسلام نے ہمیں اخوت کا درس کیوں دیا
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ 
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (القرآن)
آپکو کیا لگتا ہے 313 کی قلیل تعداد 1000 کے لشکر پر کیسے بھاری پڑی ؟ 
جناب انکی انرجی ایک تھی وہ جس کفر (پُل) پر ضرب مار رہے تھے اسکے لئے انکی سوچ ایک جیسی تھی تب ہی وہ پُل ڈھے گیا .
آپکو کیا لگتا ہے آج اسرائیل جو رقبہ و آبادی میں کراچی سے بھی چھوٹا ہے پوری دنیا پر کیسے اپنا تسلط رکھے ہوئے ؟
جناب انکی سوچ ایک ہے ، انکے دکھ درد خوشی غم اور سب سے بڑھ کر دشمن ایک ہے اور وہ اس سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا دنیا میں ہر جگہ ایک ہی سوچ سے اپنے دشمن سے لڑ رہا ہے اورن کامیابی سمیٹ رہا ہے .
ہمیں تو چودہ سو سال پہلے ہی کامیابی کے اتنے گر سکھا دیے گئے تھے کہ اگر ایک کو بھی تھام لیتے تو آج نیہ پار ہوجانی تھی پر افسوس ہم تقسیم در تقسیم ہوتے گئے . اور یہ تقسیم نا ہمیں دشمن کے خلاف کامیاب کرسکتی ہے نا ہی بطور شہری ہم اپنے ملک کے کسی کام آ سکتے ہیں . پھر چاہے مذہبی تقسیم ہو یا سیاسی تقسیم . نسلی تقسیم ہو یا نظریاتی تقسیم.
 
ہمیں لاکھوں کا جلسہ کرنے والے مذہبی یا سیاسی خدا نہیں چاہئے ، ہمیں بس ایک ایسا لیڈر چاہئے جو بیس کروڑ کی آبادی میں محض ایک لاکھ ایسے لوگ تیار کر سکے جنکی سوچ دکھ خوشی نظریہ فلاح والا ہو اور وہ اپنے اس نظریہ سے بے انتہا مخلص ہوں . جس دن ایسا کوئی لیڈر اس دھرتی میں پیدا ہوا اس دن یہ دھرتی روشن انقلاب کی صبح ضرور دیکھے گی . ان شاء الله

تحریر : ملک جہانگیر صاحبآجاۓ تو انہیں اپنا ڈسپلن توڑتے ہوئے مارچ ختم کر کے نارمل انداز میں وہ پُل پار کرنے کو کہا جاتا ہے . اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب مارچ کرنے والے انداز میں تمام فوجی ایک ہی وقت میں اپنا پاؤں زمین پر مارتے ہیں تو اس سے انرجی کا ایک بہت بڑا بلاک بنتا ہے جس کی سکت اس پُل کے پارٹیکلز نہیں برداشت کر پاتے لہٰذا بہت امکان ہوتا ہے کہ وہ پُل ڈھے جاۓ گا . 
اس پر میں نے سوال پوچھا کہ سر کتنے فوجی اس طرح کریں تو پل گرے گا ؟ 
سر نے جواب دیا کہ یہ پل کی ساخت اور مٹیریل پر منحصر کرتا ہے . اس پر میں نے دوسرا سوال پوچھا کہ اسی پُل پر گاڑیاں اور دیگر افراد بھی تو چل رہے ہوتے ہیں تب یہ پُل کیوں نہیں ڈھے جاتا ؟ 
سر نے جواب دیا کہ وہ با یک وقت ایک ہی طرح کی انرجی بلاک نہیں بنا رہے ہوتے لہٰذا انکی بنائی گئی انرجی پُل کی وائبریشن ضائع کردیتی ہے لہٰذا ایک لاکھ افراد کا پُل پر چلنا نقصان دہ نہیں ہوتا پر 500 مارچ کر کے جاتے ہوئے فوجی اس پُل کے لئے زیادہ نقصان دہ ہیں کیوں کہ انکے قدم اور انرجی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں .
یہ بات مجھے بہت مشکل سے سمجھ لگی تھی پر جب قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی تو سمجھ آیا کہ اسلام نے ہمیں اخوت کا درس کیوں دیا
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ 
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (القرآن)
آپکو کیا لگتا ہے 313 کی قلیل تعداد 1000 کے لشکر پر کیسے بھاری پڑی ؟ 
جناب انکی انرجی ایک تھی وہ جس کفر (پُل) پر ضرب مار رہے تھے اسکے لئے انکی سوچ ایک جیسی تھی تب ہی وہ پُل ڈھے گیا .
آپکو کیا لگتا ہے آج اسرائیل جو رقبہ و آبادی میں کراچی سے بھی چھوٹا ہے پوری دنیا پر کیسے اپنا تسلط رکھے ہوئے ؟
جناب انکی سوچ ایک ہے ، انکے دکھ درد خوشی غم اور سب سے بڑھ کر دشمن ایک ہے اور وہ اس سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا دنیا میں ہر جگہ ایک ہی سوچ سے اپنے دشمن سے لڑ رہا ہے اورن کامیابی سمیٹ رہا ہے .
ہمیں تو چودہ سو سال پہلے ہی کامیابی کے اتنے گر سکھا دیے گئے تھے کہ اگر ایک کو بھی تھام لیتے تو آج نیہ پار ہوجانی تھی پر افسوس ہم تقسیم در تقسیم ہوتے گئے . اور یہ تقسیم نا ہمیں دشمن کے خلاف کامیاب کرسکتی ہے نا ہی بطور شہری ہم اپنے ملک کے کسی کام آ سکتے ہیں . پھر چاہے مذہبی تقسیم ہو یا سیاسی تقسیم . نسلی تقسیم ہو یا نظریاتی تقسیم.
ہمیں لاکھوں کا جلسہ کرنے والے مذہبی یا سیاسی خدا نہیں چاہئے ، ہمیں بس ایک ایسا لیڈر چاہئے جو بیس کروڑ کی آبادی میں محض ایک لاکھ ایسے لوگ تیار کر سکے جنکی سوچ دکھ خوشی نظریہ فلاح والا ہو اور وہ اپنے اس نظریہ سے بے انتہا مخلص ہوں . جس دن ایسا کوئی لیڈر اس دھرتی میں پیدا ہوا اس دن یہ دھرتی روشن انقلاب کی صبح ضرور دیکھے گی . ان شاء الله

تحریر : ملک جہانگیر صاحب

مرہم عطاالرحمن چوہان


    دنیا کے ہر فرد کو توجہ، ہمدردی اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان جتنابڑا اور مالدار ہوگا، اس کو اتنی ہی زیادہ توجہ، ہمدردری اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ایسا سودا ہے جو مقام، مرتبے اور پیسے سے نہیں ملتا بلکہ مالِ بدل ہے، آپ جتنی محبت، ہمدردی اور تعاون دوسروں کو دیں گے اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو اس سے کہیں زیادہ محبت، ہمدردی اور تعاون حاصل ہوگا۔ یہ معاملہ صرف مثبت ہی نہیں بلکہ منفی بھی ایسا ہی ہے، جتنی نفرت، بیگانگی، دھوکہ اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے گا، وہ گھوم پھر کر واپس آپ کی طرف پلٹ آئے گی۔اس کا تعلق مذہب اور عقیدے سے نہیں بلکہ انسانیت سے ہے۔مسلمانوں کے لیے یہ معاملہ دُہرے فائدے کا ہے، دنیا میں بکھیری جانے والی محبتیں، خوشیاں اور سہولتیں تو ہر فرد کو اس کی زندگی میں ہی واپس مل ہی جاتی ہیں لیکن مسلمان اپنے عقیدے کی بدولت اس سے کئی گنا زیادہ منافع حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے بھی محفوظ کرلیتا ہے۔یہ اتنا پکا سودا ہے کہ اسے رب العالمین نے اپنے ذمے قرض قرار دیا ہے۔
    پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے لوگ ایثار پیشہ ہیں۔ ایثار، قربانی، صدقہ اورخیرات صرف مال کی صورت میں ہی نہیںدیا جاتا بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ مال تو وہی دے گا، جو صاحب مال ہے لیکن محبت کے دو بول ہر فرد دے سکتا ہے جس کے جبڑوں کے درمیان زبان کی نعمت میسر ہے، ، دست شفقت تو ہر وہ فرد بڑھا سکتا ہے، جس کو اللہ نے دو یا کم از کم ایک ہاتھ سے نواز رکھا ہے۔ محبت بھری نگاہ ہر وہ فرد عطیہ کرسکتا ہے جسے اللہ نے بینائی کی نعمت سے ہمکنار کررکھا ہو، بھلے وہ ایک ہی آنکھ ہو۔
    تیمارداری کی اہمیت وہی جانتا ہے جو کچھ دن علالت میں گزار چکا ہو۔فاتحہ خوانی کی اہمیت اس سے پوچھیے،جس کا کوئی پیارا موت کے منہ میں چلا گیا ہو اور کس، کس نے اظہار افسو س کیا، کس نے اس موقع پر ہمدردی کے دو بول بولے، کون اس گھڑی کو بھلا سکتا ہے۔شفقت کی نگاہ اور سر پر ہاتھ پھیرنے، گلے لگانے اور پیار کرنے کی قیمت اس سے پوچھیے جوماں یا باپ کی نعمت سے محروم ہو۔ راستہ بھول جانے والے کو منزل کی نشان دہی کردینے میں کیا جاتا ہے، کسی پریشان حال سے خیریت پوچھنے پر کتنے دام لگتے ہیں۔ کسی کے آنسو پونچ لینے میں کیا خرچ ہوتا ہے۔
    یہ سب کچھ رب کی عطا کردہ نعمتوں کی زکواة ہے۔ یہ دراصل اپنے لیے خوشیاں، محبتیں، سہولتیں اور آسانیاں خریدنے کا سودا ہے۔کیا کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ گھس جائے گا؟ کیا کسی کو اچھائی کی دو باتیں کہنے سے زبان کمزور پڑ جائے گی؟ کیا کسی بیمار کے سرہانے کھڑے ہوکر حوصلہ دینے سے ہمارے جسم میں قوت کم ہو جائے گی؟بالکل اسی طرح دوسروں کے لیے دئیے گئے مال میں سے بھی ایک پائی کم نہیں ہوتی، بلکہ اضافے کا ہی سبب بنتی ہے۔
    ہاں اگر آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال بھی ہے تو اس کا اڑھائی فیصد یا اس سے کچھ زیادہ دینے سے مال میں برکت ہوگی، اضافہ ہوگا بلکہ حیران کن اضافہ ہوگا۔ نقد منافع بھی حاصل ہوگا اور حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے رب العالمین کے نام قرض بھی واجب ہو جائے گا۔ ایسا رب جس سے بڑھ کرکوئی ایفائے عہد کر ہی نہیں سکتا اور ایسا رب جو اپنے ذمہ قرض کا ہزار گنا بلکہ کئی ہزار گنا بڑھا کر دینے کر دے گا۔
    خیر کو عام کرنے کے لیے غریب، لاچار اور بے بس کا انتظار نہ کیجیے، مذہب، مسلک، برادری اور علاقے کی تفریق میں نہ جائیے، ہر انسان اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ خیر کو عام کیجیے، بے دریغ کیجیے، ان گنت کیجیے، بے شمار کیجیے، چھپ کر کیجیے، سرعام کیجیے، اپنوں کے لیے، غیروں کے لیے، انسانوں کے لیے، جانوروں کے لیے۔ یہ سودا کردیجیے ، منافع صحت، سلامتی، صبر، شکر، حوصلے، عزم ، مال ، دولت اور عزت و توقیر کی صورت میں ملے گا اور بے حساب ملے گا۔
    بس بات یقین اور اعتماد کی ہے۔ اپنے ہاتھ میں، اپنی نگاہ میں ، اپنے قلب میں اور اپنی جیب میں ہمیشہ مرہم رکھیے، جب اور جہاںمحسوس کریں، اسے پیش کیجیے۔آخری بات حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو ضرورت مندوں کے لیے محنت کرتا ہے اس کا اجر جہاد فی السبیل اللہ جیسا ہے اور جو ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتا ہے اس کی ضرورتیں اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔
نفاذ اردو کیوں ضروری ہے؟
نقوش قلم…. عطاءالرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com

    ڈاکٹر نے نسخہ میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا ہے ان ہدایات کی روشنی میں بچے کا علاج جاری رکھیں۔ میں نے نسخے پر ایک نظر ڈالی تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ سولہ سال تک تعلیم حاصل کرنے اور بیس سال تک دفتر میں انگریزی لکھنے لکھانے کے باوجود میں ڈاکٹر صاحب کے لکھے ہوئے نسخے اور طبی ہدایات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ ڈاکٹر مریضوں کے جھرمٹ میں الجھا ہوا تھا اور کام کے بوجھ کی وجہ سے موصوف کا لہجہ بھی خاصا تلخ تھا، اس کے باوجود میں نے ہمت کرتے ہوئے ان سے پوچھ لیا کہ جناب علاج اور ہدایات میں کیا تجویز کیا ہے، جواب میں یہی کہا کہ سب کچھ لکھ دیا ہے۔ میں نے دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے ارشادات عالیہ پر غور کیا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ادویات کے نام تو عام آدمی کو سمجھنا مشکل ہوتے ہیں لیکن اضافی طور پر جو طبی ہدایات تھیں وہ بھی ناقابل فہم تھیں۔ ڈاکٹروں کی لکھائی عام طور پر پہلی جماعت کے طالب علم سے بھی زیادہ گئی گزری ہوتی ہے۔پھر زبان بھی بدیشی ہوتو کون سمجھے گا۔
    ایم اے پاس اور برسوں انگریزی زبان میں لکھنے پڑھنے والے پاکستانی شہری کو اگر ڈاکٹر کی لکھی ہوئی انگریزی سمجھ نہیں آئی تو ۵۹ فیصد پاکستانی اپنا اور اپنے گھرانے کا علاج ان ڈاکٹروں سے کیسے کرواتے ہوں گے، جو انگریزی زبان کی اے بی سی سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے ہاں صحت عامہ کی سہولتیں کتنی ہیں ، یہ کسی وضاحت کا محتاج موضوع نہیں۔ جو کچھ میسر ہے وہ انگریزی میں انٹ شنٹ لکھے گئے مخفف نسخے اور ادویات ساز کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ مشکل تر انگریزی میں لکھے گئے دو تین صفحات پر مشتمل ادویات استعمال کرنے کا طریقہ اور دوران علاج کی جانے والی احتیاطی تدابیر، پرہیز اور خوراک کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ کتنے فیصد پاکستانی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم میسر سہولیات سے درست استفادہ نہیں کرپاتے اور مریض صحت یابی کے بجائے دائمی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
    ہماری حکومت اور سرکاری ادارے عوام دشمنی کی اس حد کو کیوں چھو رہے ہیں کہ عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ہم اربوں روپے خرچ کرکے ڈاکٹروں کو تعلیم دیتے ہیں اور کھربوں روپے صحت عامہ پر خرچ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، جو مریض سے معلومات تو اردو، پشتو، پنجابی، سندھی اور بلوچی میں لیتے ہیں۔ اس کو ہدایات بھی انہی زبانوں میں دیتے ہیں لیکن جب لکھ کر دینے کا مرحلہ آتا ہے تو اپنے دشمنوں کی زبان میں شکستہ لکھائی میں وہ کچھ ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں جو ان کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ پاتا۔آخر انگریزی میں ایسی کیا خوبی ہے جو ہمارے ذہنوں سے صدیوں بعد بھی نہیں نکل رہی، ہاں اگر انگریزی میں نسخے لکھنے اور طبی ہدایات جاری کرنے میں کوئی فائدہ نظر آتا ہو تو اسے جاری رکھنا چاہیے لیکن اگر اس کے نتیجے میں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا کام کیا جارہا ہوتو یہ سب اقدام قتل کب تک جاری رہے گا۔بس کیجیے، عوام سے مذاق بہت ہوگیا۔ عوام انگریز سے آزاد ہو چکے ہیں، انہیں مجبور نہ کریں کہ وہ موجودہ انگریزی نوازوں سے بھی آزادی کی تحریک شروع کردیں۔ عوام نے انگریز سامراج کا ظلم بہت سہہ لیا ہے۔ انہیں مزید ستم زدہ نہ کریں، عوام انگریزوں سے نفرت کرتے ہیں اور انگریزی زبان بھی سامراجیت کی علامت ہے۔ خدا کا خوف کریں اور سامراجیت کی علامتوں کو رواج نہ دیں۔ آخر یہ سب کچھ اردو میں لکھ دینے میں کیا حرج ہے۔ عوام کا مزید امتحان نہ لیں ۔
    دستور پاکستان میں تو ۳۷۹۱ءمیں عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا نظام اردو میں چلایا جائے گا۔ عوام نے انہیں برائیوں سے نجات پانے کے لیے انگریز سامراج سے آزادی کے لیے لازوال قربانیاں دیں تھیں۔ پاکستان بن جانے کے باوجود مقتدر طبقے کے دماغ سے انگریزی غلامی نہیں نکل سکی۔ یہ غلامانہ ذہنیت ابھی تک آزاد نہیں ہوسکی۔ کوئی جاہل اگر ایسی حرکت کرجائے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر پڑھ لکھ کر جو جاہلانہ حرکت کرے اور مسلسل کرتا چلا جائے تو اسے کیا کہا جائے گا۔ وزیراعظم پاکستان کو اگر چینی زبان میں کوئی طبی نسخہ لکھ کر دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ جناب والا! یہ انگریزی عوام کے لیے چینی، روسی اور ہندی زبان کے مترادف ہی ہے۔ ہم نے قوم کو ابھی اردو نہیں پڑھائی تو پھر ہمیں موت کے پروانے انگریزی میں کیوں دئیے جارہے ہیں؟ جناب وزیراعظم اس قوم پر رحم کھائیں، آپ توعلاج کروانے برطانیہ اور امریکہ چلے جائیں گے غریب پاکستانیوں نے انہیں ڈاکٹروں سے علاج کروانا ہے ، براہ کرم قوم پر رحم کھاتے ہوئے ڈاکٹروں اور ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کو اردو میں طبی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کیجیے، اس پر کوئی خرچ نہیں آئے گا۔ اگر قومی خزانہ خالی ہے تو عوام چندہ کرکے یہ خرچ برداشت
کرلیں گے۔