خونی لکیر… کون توجہ دے گا؟

خونی لکیر… کون توجہ دے گا؟

عطاء الرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com
کنٹرول لائن کے قرب و جوار میں آباد شہری کس قرب سے گزررہے ہیں، اس کا اندازہ گرم نیوز روم میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ برنالہ سے تائو بٹ تک پھیلی ہوئی طویل خونی لکیر کے مکینوں کا گزشتہ ۲۵ سالوں سے مسلسل خون رس رہا ہے، کہیں بوند، بوند اور کہیں بے شمار خون ۔ نہ کوئی مداوا ہے اور نہ اعداد وشمار۔ کئی سال پہلے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ سماہنی (ضلع بھمبر، آزاد کشمیر) میں ریڈ فاونڈیشن سکول پر بھارتی جارحیت سے شہید ہونیو الے طلبہ کے والدین سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ ہوشربا مناظر آج بھی آنکھوں میں ترو تازہ رہتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت ۱۹۹۰ ء سے مسلسل جاری ہے۔ وہ کب، کہاں سے شب خون مارتا ہے، اس کی مرضی ہے۔کتنے لوگ اس جارحیت کا شکار ہو چکے،، کتنی املاک تباہ ہوئیں، لاکھوں انسان کس خوف اور قرب میں مبتلا ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے تو برنالہ، سماہنی، نکیال، تتہ پانی، ہجیرہ، اور وادی نیلم کے علاقوں میں کنٹرول لائن سے متصل آبادی مکمل طور پر بھارتی فوج کے رحم و کرم پر ہے۔
خونی لکیر پر بھارتی جارحیت کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے جاری ہے اور کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت نے کبھی بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس کے لیے جو حفاظتی اقدامات کیے جانے تھے، ان پر نہ کبھی سوچا گیا اور نہ کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ خونی لکیر سے متصل ایک کلومیٹر علاقے پر آباد شہریوں کو متبادل جگہ دے کر ان کی محفوظ آباد کاری کا انتظام کیا جاتا۔ خونی لکیر کے قریب بستیوں کو پختہ سٹرکوں سے ملایا جاتا، ہر گاوں میں فرسٹ ایڈ سینٹرز قائم کیے جاتے اور کمیونٹی کو سول ڈیفنس اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی۔ پندرہ سے بیس منٹ کی مسافت پر ایمبولینس سروس کا انتظام کیا جاتا۔ تب کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ ایک فیصد بھی توجہ نہیں دی گئی اور حکومت آزادکشمیر آج بھی اس بارے میں کوئی بھی حکمت عملی نہیں رکھتی۔ جس کا واضع مطلب یہی ہے کہ ان لاکھوں شہریوں کی زندگی بھارتی فوج کے رحم و کرم کے سپرد کر دی گئی ہے۔
نوئے کی دہائی میں مجھے اس ایشو پر صدر ریاست سردار سکندر حیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں نے خونی لکیر سے متصل علاقوں میں ایمبولینس سروس شروع کرنے کی تجویز دی تو ان کا کہنا تھا کہ فنڈز کی کمی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قصر صدارت اور وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ایک، ایک مرسیڈیز گاڑی فروخت کرکے ایمبولینس گاڑیاں خریدی جاسکتی ہیں، تب وہ میری بات سن کر مسکرا دئیے تھے۔ آج بھی معاملہ یہی ہے، ہنگامی طور پر ہر انتخابی حلقے کے ترقیاتی بجٹ سے ایک ایمبولینس خریداری کے لیے وقف کیے جائیں تو تیس ایمبولنیس گاڑیاں فوری طور پر خریدی جاسکتی ہیں۔دوسرا اہم مسئلہ سڑکوں کی تعمیر کا ہے۔ کنٹرول لائن سے ملحقہ آبادی کو جب تک پختہ سٹرک سے نہیں ملایا جاتا تب تک وہاں ایمبولینس سروس اور طبی عملے اور رضاکاروں کی رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ حالیہ حادثات میں جتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں، اگر انہیں بروقت طبی امداد فراہم کی جاتی تو ان کی جانیں بچ سکتیں تھیں۔ حکومتی عد م توجہی کی بناء پر جو لوگ زندگی کی بازیاںہا ر رہے ہیں، ان کا خون ان حکمرانوں کی گردنوں پر ہے جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر قومی وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں 1948 سے اب تک اقتدار میں رہنے والے تمام سیاستدان شامل ہیں۔ یہ قومی مجرم ہیں اور انسانیت کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔
عوام جہالت کی وجہ سے اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں، جو سیاسی کارکن کچھ جانتے ہیں وہ کرپٹ سیاسی کلچر کے باعث عوامی بہبود کے بارے میں سوچ وچار کے بجائے کمیشن خوری، فائل مافیا اور سیکم مافیا کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر آباد شہری بھی انہی کرپٹ لوگوں کا انتخاب کرتے چلے آرہے ہیں، جو گزشتہ نصف صدی سے اس قوم کو جہالت، بے بسی اور بے چارگی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم بظاہر کرپشن فری اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پتہ نہیں کتنے دنوں کے مہمان ہیں کیونکہ اس زمانے میں کرپشن فری کلچر کا چلن نہیں رہا۔ لیکن ان کی توجہ ان سسکتی جانوں تک کیسے مبذول ہوگی۔ یہ تو بھلا ہو عبد الرشید ترابی اور سردار عتیق خان کا کہ انہوں نے کنٹرول لائن کا دورہ کرکے وزیراعظم کو بھی مجبور کردیا کہ وہ ہیلی کاپٹر لے کر چند منٹوں کے لیے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ کرلیں۔
فوری طور پر جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں خونی لکیر سے متصل بستیوں میں کمیونٹی کی شمولیت سے ’’فوری طبی امداد مراکز‘‘ کا قیام اور سوفیصد شہریوں کو سول ڈیفنس اور فوری طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کی تربیت اور فرسٹ ایڈ کٹ کی فراہمی ہے۔ یہ مراکز نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتوں کے علاوہ مقامی آبادی کے کسی گھر میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں، جو رضا کارانہ طور پر عوام دینے کو تیار ہوں گے۔ اسی طرح غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے دو سے تین ماہ کے اندر تمام آبادیوں میں سول ڈیفنس اور فوری طبی امداد کے کورسز کروائے جاسکتے ہیں تاکہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرکے انسانوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔ میری اطلاعات کے مطابق الخدمت فاونڈیشن 
نے حکومت کو اس کی پیشکش کر رکھی ہے کہ اگر حکومت فرسٹ ایڈ کٹ کی فراہمی اور متعلقہ محکموں کے تعاون کو یقینی بنائے تو الخدمت فاونڈیشن مقامی آبادیوں میں فرسٹ ایڈ سینٹر قائم کرنے اور شہریوں کو فوری طبی امداد کی تربیت دینے کا کام سرانجام دے سکتی ہے۔ 
سابقہ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت پر ماتم خوانی کے بجائے انسانی جانوں کو بچانے کے لیے پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور بتدریج اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت کے پاس تجاویز مرتب کرنے کے لیے پٹواریوں کے علاوہ کوئی متبادل انتظام بھی نہیں۔ سرکاری ملازمین رشوت اور مفت خوری کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ خونی لکیر پر آباد شہریوں کے تحفظ کے لیے غیر سرکاری تنظیموں اور اعلیٰ مہارت رکھنے والے مشاورتی اداروں کے اشتراک سے ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل مرتب کرے ، بصورت دیگر بھارتی فوج آئے روز ان کی جانوں سے کھیلتی رہے گی اور بے گناہ شہری بھارتی فوجیوں کی نشانہ بازی کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔

آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ از عطا الرحمن چوہان

آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟

نقوش قلم…… عطا الرحمن چوہان

chohanpk@gmail.com
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، سٹیج کے دائیں جانب بچیاں اور بائیں جانب بچوں کے  چمکتے چہرے آنکھوں کو خیرا کر رہے تھے۔ دیواروں پر رنگ برنگے غبارے ماحول کو دلفریب بنا رہے تھے۔ پچھلی نشستوں پر ان طلبہ و طالبات کے مائیں تشریف فرما تھیں۔ سٹیج پر علامہ اقبال ؒ کی تصویر کئی سوالات پوچھ رہی تھی۔ ایک کونے پر لیڈی ڈاکٹر فروکش تھیںاور باری باری طلبہ و طالبات اقبال کی شخصیت پر تقاریر، نظمیں اور کلام اقبال سے سماعتوں کو جلا بخش رہی تھیں۔ کئی سالوں بعد کوئی ایسی مجلس میسر آئی جو ذوق و شوق سے عبارت تھی، منتظمین اور شرکا ء سب ہی یکسو اور یک زبان تھے۔ یہ میرپور شہر (شہر) سے کوٹلی جانے والے راستے میں ایک پلازے میں منعقدہ تقریب تھی، جس کا انعقاد الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے شعبہ کفالت یتامیٰ نے کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اس طرح کی تقاریب ملک کے طول و عرض میں علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش کی مناسبت منائی جا رہی ہیں۔ 


یہ وہ بچے ، بچیاں جو شفقت پدری سے محروم ہو چکے ہیں اور الخدمت فاونڈیشن نے فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت ان کی کفالت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ جنہیں ہر ماہ متعلقہ حلقے میں جمع کیا جاتا ہے، ان کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کا میڈیکل چیک کیا جاتا ہے اور ان کی ماوں سے مشاورت کرتے ہوئے ان کی تعلیمی، اخلاقی اور دیگر سرگرمیوں کو منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں بچوں کا طبی معائنہ بھی ہر ماہ کیا جاتا ہے ۔بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
طلبہ و طالبات کے مقابلوں کے بعد مجھے گفتگو کا موقع ملا ، میں نے تقریر کرنے کے بجائے ہال میں موجود طلبہ و طالبات اور ان کی ماؤں سے سوالات کے ذریعے ان کی شخصیت کو جاننے کی کوشش کی۔ میرا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں؟  خوش کن پہلو یہ تھا کہ طلبہ و طالبات کی اکثریت نے اپنی منزل طے کررکھی تھی۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر، انجنیئر، فوجی افسر، پروفیسر، استاد، تاجر اور سیاسی راہنما سمیت سب ہی کچھ بننے کے لیے یہ نونہال کمر بستہ تھے۔ کچھ بچوں سے منزل تک پہنچنے کی حکمت عملی کے بارے میں پوچھا تو یوں لگا کہ وہ کسی کیئریر کونسلر سے زیر تربیت ہیں، انہوں نے مرحلہ وار پلاننگ کررکھی تھی اور پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔میرے سوالات کو جواب بچے آگے بڑھ ،بڑھ کر دے رہے تھے۔ ان کے اندر آگے بڑھنے کا جنون طاری تھا۔ ایک معصوم بچی نے بتا یا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر بن کر پہلا آپریشن کس کا کرنا ہے ، 
تو وہ جھٹ سے بولی اپنی مما کا، میں پوچھا کیوں تو کہنے لگی وہ اکثر بیمار رہتی ہیں۔


میں سوچتا رہ گیا کہ وہ کیا لوگ ہیں جنہوں نے مایوسیوں کے اندھیروں میں گرئے ہوئے ان معصوم بچوں کو امیدوں کے چراغ جلا دئیے ہیں۔وہ جن کے خواب چور ، چور ہو چکے تھے، انہیں دوبارہ سے خواب دیکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ وہ جن کے پاس کتاب کے لیے پیسے نہیں تھے، ان کی تعلیم، خوراک  اور ہر طرح کی تربیت کا بھی سامان میسر کردیا ہے۔ وہ کسی بھی طور یتیم ، بے آسرا اور ناامید دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ان کی مایوسیاں امید میں بدل چکیں تھیں، وہ سوتے جاگتے خواب دیکھنے کے قابل ہو چکے تھے۔ ان کے لباس اُجلے اور ان کے چہروں پر چمک تھی۔ ان کے ہاتھوں میں قلم 
اور کندھوں پر بستے تھے۔ 

  اس تقریب میں کچھ ایسے بچے اور ان کی مائیں بھی موجود تھیں جو صرف ایسی سرگرمیوں سے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتی تھیں۔ایک خاتون جو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں پانچ ماہ سے مسلسل اس پروگرام میں شریک ہو رہی ہوں اور میرے ذوق میں اضافہ ہو رہا ہے، میں بچوں کی صلاحیت کو جلا بخشنے والے ، ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو تلاش کرنے اور ان کو پروآن چڑھانے کی اس کوشش میں عملی طور پر شریک رہنا چاہتی ہوں۔ 
تقریب میں شریک بچوں کا تعلق میرپور شہر اور مختلف نواحی دیہاتوں سے تھا، نرسری سے نویں جماعت کے طلبہ و طالبات شریک تھے۔ تقریب کا انعقاد میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طلبہ و طالبات (والینٹرز) کے تعاون سے کیا جارہا تھا۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار طلبہ و طالبات ذوق و شوق سے اس تقریب کے انتظام و انصرام میں شریک تھے۔ ان رضا کاروں نے ہرطرف سے پنڈال کو گھیر رکھا تھا، نظم و ضبط اور حسن انتظام کے اعتبار سے ایک مثالی پروگرام ، جس میں نہ شور شرابہ اور نہ بلا وجہ کی آمد ورفت تسلسل میں مخل ہو رہی تھی۔ دکھی دلوں کو امید کی کرن دینے میں مگن کا قافلہ پوری تن دہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ رضا کاریت بھی کیا کمال شے ہے؟ ہاں مواقع میسر ہوں تو اس ملک کا ہر شہری کچھ نہ کچھ کرنے پر تیار ہے۔ اللہ کرئے یہ چمن یوں ہی ہنستا بستا رہے، مایوسیاں چھٹتی رہیں اور امید کی کرنیں پورے ماحول کو پرعزم بنادیں۔