Wise Boy

A little boy went to a telephone booth which was at the cash counter of a store and dialed a number.

The store-owner observed and listened to the conversation: 

Boy : “Lady, Can you give me the job of cutting your lawn?

 

Woman : (at the other end of the phone line) “I already have someone to cut my lawn.”

 

Boy : “Lady, I will cut your lawn for half the price than the person who cuts your lawn now.”

 

Woman : I’m very satisfied with the person who is presently cutting my lawn.

 

Boy : (with more perseverance) “Lady, I’ll even sweep the floor and the stairs of your house for free.

 

Woman : No, thank you.

 

With a smile on his face, the little boy replaced the receiver. The store-owner, who was listening to all this, walked over to the boy.

 

Store Owner : “Son… I like your attitude; I like that positive spirit and would like to offer you a job.”

 

Boy : “No thanks,

 

Store Owner : But you were really pleading for one.

 

Boy : No Sir, I was just checking my performance at the job I already have. I am the one who is working for that lady I was talking to!”
This is called

“Self Appraisal”

 

 

 

The difference between dream and aim,

 

Dream requires Soundless sleep to see

 

Where as Aim Requires Sleepless Efforts to Achieve.

کامیابی کا سفر

کامیابی کا سفر

کامیابی کا سفر۔۔۔۔۔۔ منزل کی طرف یکسوئی سے قدم بڑھانے کا نام ہے۔ کچھ لوگ گھروں میں آرام دہ تکیے لگا کر کامیابی کے خواب دیکھتے ہیں۔ ملک میں تبدیلی لانے کے اکثر خواہش مند ایسی ہیں، ان میں اسلام پسند بھی شامل ہیں اور سیکولر بھی۔ ان کی خواہش ایسی ہی ہے کہ شیر اپنی کچھار میں آرام کرتا رہے اور یہ چاہیے کہ بکری روزانہ آ کر اس کے سامنے اپنا سر پیش کرے لیکن عملی زندگی میں ایسا ہوتا نہیں البتہ خواب دیکھنے پر پابندی بھی کوئی نہیں۔
ہمارے علماء اپنی مسجد اور مدرسے کے چندے کے لیے تو روز گھر سے نکل جاتے ہیں لیکن اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صرف دعاوں اور تقریروں پر گزارہ کرتے ہیں۔  جو لوگ دنیا پر اسلام کا غلبہ چاہتے ہیں۔ وہ دراصل شیطانی قوتوں سے اقتدارچھین کر اسلامی کی سربلندی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ شیطانی قوتیں کسی بھی قیمت پر پسپائی اختیارکرنے پرآمادہ نہیں۔ اس کے باوجود وہ اقتدار کو چھین لینے کی کسی کوشش کے بجائے محض غوروفکر اورمنصوبہ سازی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ 
خوش قسمتی سے اس گروہ کو قیادت بھی ایسی میسر آئی ہے، جو انہیں کسی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہتی۔ اسے تبدلی اور انقلاب میں کوئی جلدی بھی نہیں، شائید ان کے خیال میں جلدبازی شیطان کا راستہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جلد بازی سے حادثے کا بھی خطرہ ہے۔ انقلاب سے حشرات الارض کو بھی نقصان پہچنے کا خدشہ ہے۔ کچھ دوستوں کی ناراضگی بھی مول لینا پڑے گی۔ اس پر پیسے بھی خرچ ہوں گے، کچھ بے آرامی بھی ہوسکتی ہے۔ کہیں جیل کی سلاخوں سے بھی پالا پڑسکتا ہے۔کہیں مفادات کو بھی زک پہنچ سکتی ہے۔  چکن کڑاھی اور مٹن تکہ بھی کچھ دن ناپید ہوسکتا ہے۔ کارکن تھک بھی سکتے ہیں۔ کبھی بھوک پیاس سے بھی پالا پڑ سکتا ہے۔ سٹیٹس کو خطرے میں پڑ جائے گا، نظام میں خلل اندازی ہوگی۔  فساد برپا ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔
اس جلد بازی سے لوگ ہمیں اقتدارکا لالچی بھی قرار دیں گے۔ مقتدر حلقے نالاں ہوجائیں گے، جو دوکانداری چل رہی ہے، یہ بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ پرسکون دفتروں میں ائیرکنڈیشن کی برکات سے استفادہ ناممکن ہو جائے گا۔ ہم سفر تو کر رہے ہیں ناں۔ نہ رکے ہیں، نہ جھکے ہیں۔ روزانہ میٹنگ بھی کرلیتے ہیں، ایک دو اخباری بیانات بھی داغ دیتے ہیں۔ کسی تعزیت کے لیے بھی چلے جاتے ہیں، ساتھیوں کی خوشی میں بھی شامل ہو تے ہیں۔ سیمینار بھی کرلیتے ہیں۔ کسی نہ کسی انداز میں اپنا موقف ریکارڈ بھی کرواتے ہیں۔ تربیت گاہیں بھی ہو رہی ہیں۔ اجتماعات بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ رپورٹیں بھی بنائی اور سنائی جاتی ہیں۔ کام تو جاری ہے اور جاری رہے گا۔ 
ہمیں مشکل میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اقتدار تو جب اللہ کی مرضی اور منشا ہوگی تو وہ تحفے میں ملے گا۔ اس کی طلب کرنا تو شرعا جائز بھی نہیں۔ ہمیں اللہ نے انقلاب لانے کا مکلف بھی نہیں ٹھہرایا، ہم تو جد وجہد کرنے کے مکلف ہیں، سو وہ جاری ہے۔ ہماری اجتماعیت رضاکاروں پر مشتمل ہے، ہم کوئی مشکل فیصلہ ٹھونسنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ بس اتنا کافی ہے، جس پر کارکن آسانی سے عمل کرلے اور عدم اطاعت کا الزام بھی لگ سکے۔ کام کا بوجھ بڑھنے سے کارکنوں میں تشویش بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے تبدیلی اور انقلاب کا پرامن اور درست طریقہ یہی ہے کہ کارکن جس رفتار اور جس ڈھنگ سے چلیں، قیادت ان کے پیچھے، پیچھے ، خراماں، خراماں محو سفر رہے۔ کیونکہ اجتماعیت میں یکسوئی اور یگانگت قائم رکھنا ہماری روایت رہی ہے۔ جلد بازی میں ہم اپنی روایات کو تو پامال نہیں کرسکتے۔ موجودہ حالات میں تبدیلی کا یہی طریقہ کارگر ثابت ہو گا۔