موذی امراض…. ؟ نقوش قلم…….. عطاءالرحمن چوہان

chohanpk@gmail.com

    باغ(آزادکشمیر) ایک خوبصورت اور مجموعی طور پر صحت افزا مقام ہے۔ یہاںنئے زمانے کی آلودگیا ں بھی پوری طرح مسلط نہیں ہوئیں۔ موبائل فون ٹاور، خود موبائل فون اور گاڑیوں کا دھواں ہی ہے اس کے باوجودباغ کے گردونواح میں امراض قلب، کینسر، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی امراض جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں۔ شاید ہی کوئی بستی ہوگی جہاں خواتین و حضرات کی بڑی تعداد ان امراض کا شکار نہ ہو۔معصوم بچے بھی شوگر کا شکار ہیں۔ روزانہ میلوں پیدل چلنے والے امراض قلب کے ہاتھوں بے بس ہوچلے ہیں، بلڈ پریشر جیسے متعدی بیماری ہو، ہر پانچویں ، چھٹے فرد کو لاحق ہے۔ اب تو الرجی جیسی ناسور بیماری بھی پھیلتی جارہی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں نہ ڈاکٹر ہیں اور نہ ادویات۔ اگر ڈاکٹر میسر ہے تو لیبارٹری نہیں، کروڑوں روپے کے لیبارٹری ایکوپمنٹ کے باوجود ڈاکٹر قصایوں کی طرح مریضوں کو پرائیوٹ لبیارٹریوں کی طرف دھکیل رہے ہیں تاکہ ان کی دیہاڑی بنتی رہے۔ادویات تو سرکاری ہسپتالوں میں ہمیشہ ناپید ہی رہی ہیں۔ عوام تو درکنار سرکاری ملازمین تک کو سرکاری ہسپتالوں سے ادویات فراہم نہیں کی جاتیں، جنہیں بطور سرکاری ملازم ان ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت قانونی طور پر حاصل ہوتی ہے۔
    زلزلے کے بعد ان بیماریوں میں شدت آئی ہے لیکن حکومتی سطح پر نہ تو اس کاسروئے کروایا گیا اور نہ ہی مقامی طورپر ان امراض کے علاج پر کوئی توجہ دی گئی۔ڈاکٹر تو سرکاری ہسپتالوں میں صرف چائے پینے اور میٹنگ کرنے جاتے ہیں۔ وہ پرائیوٹ سیکٹر میں عالیشان ہسپتال بنتے جارہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے کروڑوں روپے کی انوسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ عوام کی اکثریت ان پرائیوٹ ہسپتالوں کے بھاری اخراجات برداشت نہیں کرپاتے اور نہ ہی ان موذی امراض کا کوئی سپشلسٹ پرائیوٹ سیکٹر میں بھی میسر ہے۔
    میرے خیال میں یہ غیر معمولی حالات ہیں، ایک ایک بستی میں درجنوں افراد ان امراض کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکومت کا فرض ہے کہ فوری طور پر ان علاقوں کا ہیلتھ سروئے کیا جائے۔ ان امراض کے پھیلنے کی وجوہات تلاش کی جائیں اور ماہرین کی راہنمائی میں ان امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی امور پر عوامی مہمات چلائی جائیں۔ان امراض کے علاج کے لیے مناسب سہولیات کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں الگ ڈیسک اور وارڈیں قائم کی جائیں۔
    ان امراض کے پھیلنے کی حقیقی وجوہات تو ہیلتھ سروئے کے بعد ہی معلوم کی جاسکیں گی تاہم میرے خیال میں ناقص خوراک اس کی بڑی وجہ ہے۔ آزادکشمیر کے بازاروں میں خالص خوردنی اشیاءکی دستیابی ممکن نہیں۔تاجر بھاری منافع کی لالچ میں دو، تین، چار اور پانچ نمبر مال فروخت کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں دو نمبری کے چلن نے شریف کاروباری افراد کو بھی دو نمبرمال رکھنے پر مجبور کررکھا ہے ، کیونکہ خالص اور معیاری اشیاءکی قیمت بازار میں دستیاب دیگر اشیاءسے یقینا زیادہ ہو گی ، جس کو دونمبر مارکیٹ کلچر کی موجودگی میں فروخت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر دودھ، چائے، گھی، خوردنی تیل، مرچ، مصالحے اور سگریٹ جو ہر گھر کی ضرورت ہے کہیں سے بھی خالص میسر نہیں آئیں گی۔ ایسے میں امراض نہیں پھیلیں گے تواور کیا ہوگا۔
    تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان حالات میں سرکاری سطح پر نہ کوئی توجہ ہے اور نہ حکمت عملی۔ سیاست دان اور سرکاری افسران مال بنانے کے علاوہ کسی دوسرے معاملے میں دلچسپی تک نہیں رکھتے۔ کوئی این جی اوہیلتھ میں کام کرنا چاہے تو سرکاری ادارے ایسے معیارات کا پابند کرتے ہیں، جو یورپ میں بھی لاگو نہیں ہوتے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں آٹھاریوں صدی کا سکہ رائج ہے۔ طبی عملے میں ایسے سفارشی عملہ ارکان بھرتی کیے گئے ہیں ، جنہوں نے لیبارٹری ایکوپمنٹ کے نام تک نہیں سن رکھے وہ ہسپتالوں میں بطور ٹیکنیشن ملازمت کرتے ہیں۔
    راولپنڈی اور اسلام آباد کے سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال آزادکشمیر بالخصوص باغ کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جانے والی کسی شاہراہ پر کھڑے ہوجائیں مریضوں اور لاشوں کو لانے لیجانے والے ایمبولنیسیں پبلک ویگنوں کی طرح رواں دواں نظر آئیں گی۔ بدقسمتی سے ان ایمبولینس گاڑیوں میں بھی کہیں سرکاری ایمبولنیس گاڑی دکھائی نہیں دے گی کیونکہ سرکاری ایمبولینس گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے پرائیوٹ ایمبولینس گاڑیاں ہسپتالوں کے باہر کھڑی کررکھی ہیں، سرکاری گاڑیاں ہمیشہ بیمار (آوٹ آف سروس) قرار پاتی ہیں اور مریض پرائیوٹ ایمبولینس استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
    ان سارے مسائل کی تہہ میں اصل محرک کرپٹ سرکاری مافیا ہے۔ جو ناقص اشیاءخروونوش کی سپلائی، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی کمی، ڈاکٹروں اور دیگر متعلقہ عملہ جات کی بے حسی سمیت سارے مسائل کرپٹ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ غریب عوام کی جیب میں بچا کھچا پیسہ اور جسم میں خون کو اشرافیہ کس، کس طور نچوڑ رہی ہے اور غریب کی جیب سے ڈاکٹر کس طرح مسیحا کے روپ میں لوٹ کر اپنا، فارموسٹکل کمپنیوں اور لیبارٹریوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ جن ادویات میں چالیس سے ساٹھ فیصد کمیشن مارجن ہوگا، ان کا معیار کیا ہوگا۔ ڈاکٹر مریض کو جو ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں، وہ اس مریض کی امراض سے کتنے غیر متعلق ہو تے ہیں، اگر عام شہری کو اس کا اندازہ ہو جائے تو وہ ڈاکٹروں کو زندہ جلا دیں۔
    یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں اس لیے ہو رہا ہے کہ سرکار کی کرسی پر بیٹھا ہر اہل کار اور افسر کرپٹ ہے۔ سرکاری افسران و عملہ اراکین کھلے عام کرپشن اس لیے کرتے ہیں کہ عوامی نمائندے ان سے حصہ لیتے ہیں ورنہ کسی کی مجال ہے کہ ©” عوامی اور جمہوری“ اداروں کی موجودگی میں ظلم سٹرکوں پر ناچ کرتا رہے اور مظلوم کا دھرتی پر زندہ رہنا محال ہو جائے۔

روزنامہ جموں و کشمیر کی گیارویں سالگرہ


نقوش قلم………… عطا الرحمن چوہان
روزنامہ جموں وکشمیرگیارویں سالگرہ منا رہا ہے۔ گیارہ سال ایک اعتبار سے مختصر سے چند سال لگتے ہیں۔ جنہوں نے گزارے ان کے لیے یہ عام سی بات ہے اور جن پر گزرے وہی اس کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ اخبار اور صحافت بظاہر بہت پرکشش شعبہ ہے، بڑا گلیمر ہے ۔ جو لوگ اخبار سے منسلک ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انفارمیشن ٹکنالوجی اور مقابلے کے اس دور میں ہر دن اخبار کے لیے ایک نیا چیلنج لے کرآتا ہے۔اخبار کا ہر لفظ اور ہر سطر بہت ذمہ داری سے تراشی جاتی ہے۔ خبر میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے لیے خوشیاں لاتی ہے اور کچھ لوگوں کے لیے باعث مصیبت ہوتی ہے۔ ایسے میں اخبار کے ایک ، ایک لفظ کو کتنی توجہ درکار ہوتی ہے، وہی جانتا ہے جو روزانہ اس بھٹی سے گزرتا 
ہے۔

گیارہ سال قبل روزنامہ جموں کشمیر کی لانچنگ کے وقتہمارے بھائی عامر محبوب جتنے پرجوش اور پرامید تھے آج بھی اتنے ہی پرعزم اور مستقل مزاج ہیں۔ تب یہ ایک خواب تھا اور آج یہ ایک حقیقت ہے۔تب ہر ایک کی آنکھ میں امید کی کرنیں تھیں اور آج ان کا دامن گیارہ سالہ جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک کارکن صحافی کے لیے کامیاب روزنامہ ایک خوبصورت خواب توہوسکتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس کی مثالیں خال، خال ہی ملتی ہیں۔ ۶۰۔۵۰۰۲ میں ایک، دو ریاستی روزنامے شروع ہوئے جو چند ماہ بعد افتادہ زمانہ کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ آج کے مقابلے میں وہ مشکل دور تھا، کمپیوٹر میں بھی اردو سافٹ وئیر نئے نئے تھے، یونیکوڈ ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ خبریں فیکس پر ہی آتیں تھیں یا نامہ نگار بذریعہ ڈاک خبریں اور رپورٹیں ارسال کرتے تھے۔
ریاستی سطح پر کاروباری سرگرمیاں ناپید تھیں اور سرکاری اشتہارات جوئے شیر لانے کے مترادف تھے۔ صحافت سے خال، خال کچھ عمر رسیدہ لوگ منسلک تھے۔ نوجوانوں کے لیے صحافت میں نہ امکانات تھے اور نہ ہی کوئی کشش تھی۔اس دور کے سب ایڈیٹر اور نہ ہی رپورٹر کمپیوٹر اور کمپوزنگ سے واقف تھے۔ نامہ نگاروں کی اکثریت مڈل اور میٹرک ہی ہوا کرتے تھے اور دور ،دراز علاقوں میں اخبار فروش ہی نامہ نگاری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔تجربہ کار صحافی قومی اخبارات سے منسلک تھے۔ ایسے میں آزادکشمیر کے دور، دراز علاقوں سے نئے لوگوں کی تلاش، ان کی پیشہ وارانہ تربیت اور بڑے، بڑے طاقتور اخبارات کے مقابلے میں روزنامہ جموں کشمیر ایک ننھی سی کنوپل تھی، جس کے پروان چڑھنے سے زیادہ اس کے مرجھا جانے کے خطرات تھے۔
ان مشکل حالات میں عامر محبوب میں بلا کا عزم اورشوق تھا، جو مشکلات کا ادراک رکھنے کے باوجود طوفان کا مقابلہ کرنے پر تیار تھا۔ یوں کہہ لیجیے کہ ایک ایک لفظ جمع کرکے اس نے اخبار کے صفحات مکمل کیے اور ایک ایک فرد کا ہاتھ پکڑ کر انہیں رپورٹننگ اور ایڈیٹنگ کے شعبوں میں آگے بڑھایا۔ آج ریاستی سطح پر صحافتی میدان میں موجود صحافیوں کی اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی طور پر روزنامہ جموں کشمیر سے رہا ہے۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کشمیریوں کے لیے روزنامہ جموں کشمیر صحافتی درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔روزنامہ جموں وکشمیر کی کھوک سے کتنے اخبارات اور صحافیوں نے جنم لیا، یہ ریاستی صحافتی تاریخ کا ایک خوشگوار باب ہے۔
آج اے کے این ایس کے پلیٹ فارم پر کتنے سارے اخبارات موجود ہیں، اس کے باوجود وہ حکومت سے اپنا حق لینے میں کامیاب نہیں ہو پارہے، اندازہ لگائیے کہ گیارہ سال پہلے جب اے کے این ایس کا وجود نہیں تھا اور د،و چار اخبارات، جو باہم دست و گریباں بھی تھے، ریاستی اداروں سے حقوق کی جنگ کیسے لڑتے ہونگے؟ روزنامہ جموں کشمیر کی کامیابی کی اصل وجہ اس کی عوامی پذیرائی تھی، جو اسے پہلے دن سے حاصل ہوئی اور عامرمحبوب اور ان کے رفقاءکو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے مسلسل اس میں اضافہ کیا۔ بڑے سرمایہ دار لوگ بھی اس میدان میں آئے لیکن روزنامہ جموںکشمیر نے اپنا اعزاز برقرار رکھا۔ جو ایک مشکل ترین کام تھا۔ آج تو آزادکشمیر کے ہر ضلعی صدر مقام سے کئی اخبارات شائع ہو رہے ہیں اور ریاستی سطح پر بھی اخبارات کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ، انفارمیشن ٹکنالوجی اور سوشل میڈیا نے اخبار کی ضرورت کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ ان سارے چیلینجز کے باوجود اپنے مقام کو قائم رکھنا ہر لمحہ کمربستہ رہنے سے ہی ممکن ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک سپاہی اپنے مورچے میں ہمہ وقت مستعد، یکسو اور نشانہ باندھے کھڑا رہتا ہے۔
روزنامہ جموں کشمیر اپنی گیارہ سالہ جدوجہد پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ عامر محبوب اور ان کی ٹیم کی طویل محنت کا یہ ثمر صرف ان کا ہی اثاثہ نہیں بلکہ روزنامہ جموں کشمیر ریاستی صحافت کا مشترک اثاثہ ہے۔یہ صحافت کی درس گاہ اور اچھی صحافتی روایات کا امین بھی ہے۔ عامر محبوب کے عزم اور مستقل مزاجی نے کتنے کارکن صحافیوں کو نئے اخبارات شائع کرنے کا حوصلہ دیا۔ یوں کہہ لیجیے کہ روزنامہ جموں کشمیر ایک”سکسیس سٹوری“ ہے، جس سے کئی نوجوانوں نے ممیز حاصل کی اور نتے نئے اخبارات کی صورت میں اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔