باغ(آزادکشمیر) ایک خوبصورت اور مجموعی طور پر صحت افزا مقام ہے۔ یہاںنئے زمانے کی آلودگیا ں بھی پوری طرح مسلط نہیں ہوئیں۔ موبائل فون ٹاور، خود موبائل فون اور گاڑیوں کا دھواں ہی ہے اس کے باوجودباغ کے گردونواح میں امراض قلب، کینسر، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی امراض جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں۔ شاید ہی کوئی بستی ہوگی جہاں خواتین و حضرات کی بڑی تعداد ان امراض کا شکار نہ ہو۔معصوم بچے بھی شوگر کا شکار ہیں۔ روزانہ میلوں پیدل چلنے والے امراض قلب کے ہاتھوں بے بس ہوچلے ہیں، بلڈ پریشر جیسے متعدی بیماری ہو، ہر پانچویں ، چھٹے فرد کو لاحق ہے۔ اب تو الرجی جیسی ناسور بیماری بھی پھیلتی جارہی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں نہ ڈاکٹر ہیں اور نہ ادویات۔ اگر ڈاکٹر میسر ہے تو لیبارٹری نہیں، کروڑوں روپے کے لیبارٹری ایکوپمنٹ کے باوجود ڈاکٹر قصایوں کی طرح مریضوں کو پرائیوٹ لبیارٹریوں کی طرف دھکیل رہے ہیں تاکہ ان کی دیہاڑی بنتی رہے۔ادویات تو سرکاری ہسپتالوں میں ہمیشہ ناپید ہی رہی ہیں۔ عوام تو درکنار سرکاری ملازمین تک کو سرکاری ہسپتالوں سے ادویات فراہم نہیں کی جاتیں، جنہیں بطور سرکاری ملازم ان ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت قانونی طور پر حاصل ہوتی ہے۔
زلزلے کے بعد ان بیماریوں میں شدت آئی ہے لیکن حکومتی سطح پر نہ تو اس کاسروئے کروایا گیا اور نہ ہی مقامی طورپر ان امراض کے علاج پر کوئی توجہ دی گئی۔ڈاکٹر تو سرکاری ہسپتالوں میں صرف چائے پینے اور میٹنگ کرنے جاتے ہیں۔ وہ پرائیوٹ سیکٹر میں عالیشان ہسپتال بنتے جارہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے کروڑوں روپے کی انوسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ عوام کی اکثریت ان پرائیوٹ ہسپتالوں کے بھاری اخراجات برداشت نہیں کرپاتے اور نہ ہی ان موذی امراض کا کوئی سپشلسٹ پرائیوٹ سیکٹر میں بھی میسر ہے۔
میرے خیال میں یہ غیر معمولی حالات ہیں، ایک ایک بستی میں درجنوں افراد ان امراض کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکومت کا فرض ہے کہ فوری طور پر ان علاقوں کا ہیلتھ سروئے کیا جائے۔ ان امراض کے پھیلنے کی وجوہات تلاش کی جائیں اور ماہرین کی راہنمائی میں ان امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی امور پر عوامی مہمات چلائی جائیں۔ان امراض کے علاج کے لیے مناسب سہولیات کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں الگ ڈیسک اور وارڈیں قائم کی جائیں۔
ان امراض کے پھیلنے کی حقیقی وجوہات تو ہیلتھ سروئے کے بعد ہی معلوم کی جاسکیں گی تاہم میرے خیال میں ناقص خوراک اس کی بڑی وجہ ہے۔ آزادکشمیر کے بازاروں میں خالص خوردنی اشیاءکی دستیابی ممکن نہیں۔تاجر بھاری منافع کی لالچ میں دو، تین، چار اور پانچ نمبر مال فروخت کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں دو نمبری کے چلن نے شریف کاروباری افراد کو بھی دو نمبرمال رکھنے پر مجبور کررکھا ہے ، کیونکہ خالص اور معیاری اشیاءکی قیمت بازار میں دستیاب دیگر اشیاءسے یقینا زیادہ ہو گی ، جس کو دونمبر مارکیٹ کلچر کی موجودگی میں فروخت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر دودھ، چائے، گھی، خوردنی تیل، مرچ، مصالحے اور سگریٹ جو ہر گھر کی ضرورت ہے کہیں سے بھی خالص میسر نہیں آئیں گی۔ ایسے میں امراض نہیں پھیلیں گے تواور کیا ہوگا۔
تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان حالات میں سرکاری سطح پر نہ کوئی توجہ ہے اور نہ حکمت عملی۔ سیاست دان اور سرکاری افسران مال بنانے کے علاوہ کسی دوسرے معاملے میں دلچسپی تک نہیں رکھتے۔ کوئی این جی اوہیلتھ میں کام کرنا چاہے تو سرکاری ادارے ایسے معیارات کا پابند کرتے ہیں، جو یورپ میں بھی لاگو نہیں ہوتے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں آٹھاریوں صدی کا سکہ رائج ہے۔ طبی عملے میں ایسے سفارشی عملہ ارکان بھرتی کیے گئے ہیں ، جنہوں نے لیبارٹری ایکوپمنٹ کے نام تک نہیں سن رکھے وہ ہسپتالوں میں بطور ٹیکنیشن ملازمت کرتے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال آزادکشمیر بالخصوص باغ کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جانے والی کسی شاہراہ پر کھڑے ہوجائیں مریضوں اور لاشوں کو لانے لیجانے والے ایمبولنیسیں پبلک ویگنوں کی طرح رواں دواں نظر آئیں گی۔ بدقسمتی سے ان ایمبولینس گاڑیوں میں بھی کہیں سرکاری ایمبولنیس گاڑی دکھائی نہیں دے گی کیونکہ سرکاری ایمبولینس گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے پرائیوٹ ایمبولینس گاڑیاں ہسپتالوں کے باہر کھڑی کررکھی ہیں، سرکاری گاڑیاں ہمیشہ بیمار (آوٹ آف سروس) قرار پاتی ہیں اور مریض پرائیوٹ ایمبولینس استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ان سارے مسائل کی تہہ میں اصل محرک کرپٹ سرکاری مافیا ہے۔ جو ناقص اشیاءخروونوش کی سپلائی، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی کمی، ڈاکٹروں اور دیگر متعلقہ عملہ جات کی بے حسی سمیت سارے مسائل کرپٹ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ غریب عوام کی جیب میں بچا کھچا پیسہ اور جسم میں خون کو اشرافیہ کس، کس طور نچوڑ رہی ہے اور غریب کی جیب سے ڈاکٹر کس طرح مسیحا کے روپ میں لوٹ کر اپنا، فارموسٹکل کمپنیوں اور لیبارٹریوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ جن ادویات میں چالیس سے ساٹھ فیصد کمیشن مارجن ہوگا، ان کا معیار کیا ہوگا۔ ڈاکٹر مریض کو جو ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں، وہ اس مریض کی امراض سے کتنے غیر متعلق ہو تے ہیں، اگر عام شہری کو اس کا اندازہ ہو جائے تو وہ ڈاکٹروں کو زندہ جلا دیں۔
یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں اس لیے ہو رہا ہے کہ سرکار کی کرسی پر بیٹھا ہر اہل کار اور افسر کرپٹ ہے۔ سرکاری افسران و عملہ اراکین کھلے عام کرپشن اس لیے کرتے ہیں کہ عوامی نمائندے ان سے حصہ لیتے ہیں ورنہ کسی کی مجال ہے کہ ©” عوامی اور جمہوری“ اداروں کی موجودگی میں ظلم سٹرکوں پر ناچ کرتا رہے اور مظلوم کا دھرتی پر زندہ رہنا محال ہو جائے۔
موذی امراض…. ؟ نقوش قلم…….. عطاءالرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com