الوداع۔۔۔۔ میرے مربی میرے محسن۔۔۔الوداع

Dear Ata Ur Rehman Chohan,
Your Article is now Online at Hamariweb.com.

الوداع……میرے محسن و مربی…… الوداع
To view the Article, follow the link below
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=80953http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=80953
Share this Article with your Friends on Facebook

Thanks and Regards,
The Hamariweb Team
.

الوداع۔۔۔میرے محسن، میرے مربی۔۔الودع

الوداع۔۔۔۔ میرے مربی۔۔۔۔ الوداع۔۔۔۔
عطا الرحمن چوہان
یہ دنیا آنے اور جانے کی جگہ ہے۔ یہاں کسی کو دوام نہیں۔ روزانہ کتنے لوگ رب کے پاس لوٹ جاتے ہیں اور کتنے نئے وارد ہوتے ہیں۔ کسی آنے والے کے بارے میں تو نیک تمناوں کا اظہار کیا جاسکتا ہے لیکن جانے والا تو پوری تاریخ چھوڑ کر جاتا ہے۔ یوں تو دنیا میں آنے والا ہر فرد اشرف المخلوق میں شامل ہوتا ہے اور پھر مسلمان تو “حزب اللہ” میں شمار ہوتا ہے۔
یہاں کیسے کیسے لوگ آئے، جنہوں نے انسانیت کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔ میرے چچا جی بھی ایسی ہی جیدشخصیات میں سے تھے، جن پر انسانیت ناز کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ان سے محبت کرنے والے بہت ہیں لیکن نفرت کرنے والا کوئی نہیں۔ یہی ان کی شخصیت کا کمال تھا۔
ان کی شخصیت پر تفصیلی گزارشات جلد پیش کرونگا۔ آج چند سطور میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت اور بالخصوص جماعت اسلامی، جماعتہ الدعوہ ،جماعت اہل سنت (دیوبند) اور جماعت اہل سنت (بریلوی ) مکاتب فکر کے قائدین کی شرکت نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس پرفتن دور میں بھی اتحاد امت کے نہ صرف داعی تھے بلکہ عملی تصویر بھی تھے۔

انسان تین دائروں میں بہت قریب سے پہچانا چاتا ہے، پہلا خاندان، دوسرا پڑوس، تیسرا جس جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔ علامہ صاحب جس قدر اپنے خاندان میں مقبول تھے ایسا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے خاندان کے معصوم بچوں کو بھی اشک بار دیکھا اور ہر بزرگ وجواں بے ساختہ اور ٹوٹ ٹوٹ کر اپنے کرب کا اظہار کررہا تھا۔

انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتروقت جی سکس (سیکٹر) اسلام آباد میں گزارا۔جہاں کے بزرگ، جوان، خواتین اور بچہ بچہ نماز جنازہ میں شامل تھا اور ہم سے اظہار افسوس کررہا تھا۔
تاجر، ملازم پیشہ حضرات، افسران، اہل کاران، چھابڑی والے، ہاکر اور مزدور بھی ان کے ایسے ہی غمخوار تھے جیسے ان کی قریب ترین احباب اور اعزاء۔ میں نے ان کے پڑوسیوں کو کس تیزی سے دین کی طرف ۤتے دیکھا، یہ ان کی شب و روز محنت کا عملی ثبوت تھا۔ کتنے ہی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔
تیسرا دائرہ وہ تنطیم ہوتی ہے جس میں انسان بخوبی پہچانا جاتا ہے، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سینٹر پروفیسر ساجد میر نے ان کی زندگی کا ایک فقرےمیں احاطہ کرتے ہوئے کہا “میں علماء کرام سے ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ وہ علامہ عبدالعزیز حنیف سے ممیز حاصل کریں” انہوں نے کہا کہ وہ اپنے لباس، تراش خراش کی طرح اندر سے بھی پاکس صاف انسان تھے۔ ایسے پاک صاف کہ عصر حاضر میں تلاش کرنے پر بھی ثانی نہ رکھتے ہوں۔

میں ذاتی طور پر ان کی شفقت سے مستفید ہوا۔ زندگی کے 12 سال توان کے گھر میں رہا۔ میری پرورش انہوں نے کی، میری تعلیم و تربیت ان کی مرہون منت ہے۔ میں نے انہیں ہر روپ میں دیکھا۔ جس کی تفصیل ان شاء اللہ جلد پیش کرونگا۔ وہ اپنے چچا اور ہمارے نانا جی مولانا عبد الرحمن رحمتہ اللہ علیہ، اپنے استاد علامہ محمد یوسف کلکتوی رحمتہ اللہ علیہ کا اکثر ذکر فرماتے تھے ان کی شفقت اور راہنمائی پر نازاں تھے۔ وہ ہمارے لیے مشعل راہ تھے اور ہیں۔ ان سے اپنی نسبت پر فخر تھا، وہ ہمیں ایک ایسی پہچان دے گئے ہیں، جس پر ہم تا حیات فخر رہے گا بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس نسبت پر نازاں رہیں گی اور ان کے نقوش قلم پر چلیں گی۔
ہمارے بہن بھائیوں (ان کے بچوں) نے جس طرح ان کی خدمت کی وہ بے مثال ہے۔ جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ ان کی جماعت #مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد نے جس طرح انہیں رخصت کیا اور جس طرح اہل اسلام نے ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ہم ان سب کے شکرگزار ہیں اور ان کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ آپ سب کو اجر عظیم سے نوازے۔ (آمین)
آج میں جس کرب سے دوچار ہوں، اس کیفیت میں ڈھنگ سے لکھنا بھی ممکن نہیں، تاہم اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ ہمارے سروں کا سایہ چھٹ گیا، ہم ایک ایسے شخص کی شفقت سے محروم ہوگئے، جس کا دل اور دامن بہت وسیع تھا۔ رب العالمین انہیں جس شان سے ممبر رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم سے اٹھا کر اپنے حضور لے گیا ہے، یا رب العالمین اپنی جنت میں بھی انہیں اسی شان اور شوکت سے رکھیے۔۔۔۔ ان کی زندگی ہمارے لیے جس اعزار کا باعث تھی، ان کی رحلت بھی ہمارے لیے ایک لازوال اعزاز سے نواز گئی۔ الوداع، میرے مربی، میرے محسن، الوداع، میرے آنکھوں سے برستے آنسو ور لرزتی انگلیوں سے نکلنے والے بت ڈھنگ الفاظ میرے احساسات کی ترجمانی نہیں کرسکتے۔ میں اپنی صدا اپنے رب کے حضور ہی پیش کرونگا جو دلوں کا حال سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔