حکومتی رویہ کالم

حکومتی رویہ
نقوش قلم ……..عطاءالر حمن چوہان
        آزادکشمیر حکومت کو عوام کے مسائل سے کتنی دلچسپی ہے اس کا مظاہرہ حکومت نے ۳۱ اگست کو اپوزیشن کی طرف سے بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں دیکھا گیا۔ حکمران جماعت کے صرف راجہ فاروق حیدر اور چوہدری رخسار اجلاس میں شریک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق حکمران اتحاد کے ممبر ان اسمبلی ڈاکٹر ریاض محمود اور پیر عتیق الرحمن فیض پوری اجلاس میں شرکت کے لےے مظفرآباد پہنچے لیکن حکومت نے انہیں اجلاس میں شرکت سے روک لیا۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومتی ارکان اسمبلی اور وزراءنے مذکورہ اجلاس میں شرکت کی مد میں پورا ٹی اے ڈی اے وصول کیا اور ایک رکن نے برطانیہ سے مظفرآباد تک کا ٹی اے وصول کیا لیکن اجلاس میں شرکت نہیں کیا۔ مراعات لینا تو حکومتی ممبران کا جدی پشتی حق ہے، آخر خرچہ پانی بھی چلانا ہے۔ نیز بیت المال (عوامی خزانہ) تو ہوتا ہی سرکاری ارکان کی غربت مٹانے کے لےے ہے۔ زلزلہ اور منگلاڈیم توسیع منصوبے کے متاثرین کے مسائل پر غور و فکر کے لےے بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہ کر کے وزیراعظم، وزراءاور حکمران جماعت نے عوامی مسائل سے لاتعلقی کا عملی مظاہرہ کیا اور سرکاری خزانے پر بھی بھاری بوجھ ڈال کر اپنی موجودگی کا بھی احساس دلایا۔
        متاثرین زلزلہ کے لےے حکومت آزادکشمیر نے ایک پائی بھی اپنے بجٹ میں نہیں رکھی اور منگلا ڈیم متاثرین کی بحالی کا معاملہ بھی وزارت امور کشمیر اور وزارت پانی و بجلی حکومت پاکستان سے متعلق ہے۔ ہماری کشمیر حکومت کو اگر کچھ وقت مل جائے تو انہیں صرف متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز اور وزراءکرام سے طے شدہ معاملات پر عملدرآمد رتیز کرنے کے لےے سعی کرنا ہے، اپنے بجٹ سے کچھ بھی نہیں دینا ۔ اسی طرح متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لےے پورا لائحہ عمل ایرا کے پاس تیار پڑا ہے۔ عملدرآمد کے سلسلے میں بعض مقامی اور بعض آزادکشمیر حکومت کی سطح پر مشکلات آ رہی ہیں، جو حکومت آزادکشمیر نے ایرا کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنی ہیں۔ جب ان دونوں امور میں حکومت آزادکشمیر کی ایک پائی خرچ نہیں ہونی لیکن ہماری حکومت اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر کے یہ بھی نہیں کہہ سکتی یہ ان امور میں ہمار ا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ بیچارے تو ایرا اور دیگر این جی اوز کے کاموں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے پر لگے ہوئے ہیں۔ سعودی ریلیف کی طرف سے اسی ہزار روپے فی متاثر زلزلہ کی جو امداد آئی تھی، حکمرانوں نے اپنے انتخابی حلقے میں اسے انتخابی مہم کے عین عروج پر جس طرح سیاسی رشوت کے طور پر خرچ کیا وہ بھی اب الزام نہیں بلکہ جرم کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ یہ رقم کن، کن لوگوں کو اپاہج، بیوہ، یتیم اور بے سہارا قرار دے کر تقسیم کی گئی اور کن کن پارٹی ورکروں اور مسلم کانفرنس کے کن کن بڑوں کے اہل خانہ میں تقسیم کی گئی اس کی تفصیل پھر کبھی، آج صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو عوامی مسائل سے کتنی دلچسپی ہے؟
        یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مظفرآباد اور دیگر علاقوں کی شاہرات کی تعمیر کے لےے بجٹ میں مختص رقوم کوہالہ غازی آباد روڈ کے بھاری اخراجات پورے کرنے کے لےے منتقل کردی گئی ہیں۔ اس سے کچھ لوگوں کو شکائت تو ہو گی لیکن باعث اطمیان پہلو یہ ہے کہ کم از کم چند کلومیٹر روڈ تو کسی ڈھنگ کی بنے گی، خواہ وہاں سے وزیراعظم ہی گزریں گے ، نہیں بلکہ خاصے دیگر لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ یہ بھی شکایات منظر عام پر آرہی ہیں کہ کنٹریکٹ پر بھرتی کےے جانے والے اساتذہ کے معاملے میں بھی ڈنڈی ماری جا رہی ہے۔ ابتدائی میرٹ لسٹ میں جن کے نام شامل تھے، حتمی فہرست سے وہ غائب ہو گئے ہیں۔ ہاں، قانون کی حکمرانی اور میرٹ اسی کا نام ہے۔ہمارے ہاں ہر دور نے الفاظ کو نئے معانی پہنائے ہیں۔ آج کے دور میں میرٹ کے یہی معنی ہیں، جو کوئی کسی پرانی اور بوسیدہ ڈکشنری سے معنی تلاش کرے گا، گمراہ ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں یہی روائت ہے کہ جو کچھ حکمران منہ سے نکالیں وہی قانون ہوتا ہے، اسی طرح الفاظ کو جو معنی وہ دیں گے ان کے دور حکومت تک وہی معنی رائج رہیں گے۔ علم سیاست کے تابع ہے اور سیاست پارلیمنٹ کی صورت میں قانون بنانے والا واحد ادارہ ہے۔ غلط اور درست کے سارے پیمانے اسی قانون کے مطابق طے پائیں گے جو قانون ساز اسمبلی بنائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ قانون ساز اسمبلی وہی کرے گی جو وزیراعظم ہاوس سے کہا جائے گا۔ طاقت کا سرچشمہ وزیراعظم ہاوس ہی ہے، باقی سب کٹھ پتلیاں ہیں۔ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ جو کچھ پی ایم کہے وہی درست ہے، سب کو اس کی اطاعت کرنا ہو گی، وہی مفاد عامہ ہے۔ اگر وہ غازی آباد کو ضلع بنا دیں تو وہی درست ہے۔ اگر وہ سارے کشمیر کے وسائل کوہالہ غازی آباد روڈ پر لگا دیں وہی انصاف ہو گا۔ جو لوگ عوامی قوت کے بجائے مشرف قوت سے طاقت پائیں گے وہ ایسی ہی حکمرانی کا مظاہرہ بھی کریں گے اور عوامی بے رخی کا بدلہ بھی ایسے ہی لیں گے۔

زلزلہ ۸ اکتوبر ۲۰۰۸

زلزلے ….، چندیادیں، چند باتیں (قسط اول
نقو ش قلم ….عطا ءالرحمن چوہان
        ۸ اکتوبر کے زلزلے کو دو سال ہو چکے۔ یہ دن کتنا خوفناک تھا، اس کی شدت وہی جانتے ہیں جو متاثر علاقوں میں خود موجود تھے، میں ۸ اکتوبر کی رات ۲۱ بجے متاثرہ علاقے میں پہنچا گیا تھا۔ اس دن ہمارے لاکھوں لوگ ہم سے بچھڑ گئے، ہمارے گھر، درس گاہیں، عبادت گاہیں اور قومی املاک تباہ و برباد ہو گئیں۔ ہنستے، بستے گھر ماتم کدہ بنے، کھیلتے کودتے بچے یکا یک زمیں میں دھنس گئے۔ سرسبزپہاڑ، گنگناتے آبشار، چہکتے پرندے سب ہی اداس تھے۔ وہ پہاڑ اور درخت جنھوں نے مٹی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا ڈھلیے پڑ گئے بلکہ انہوں نے اپنی گرفت ختم کر دی ۔ تب کیا تھا بلندیوں سے پتھروں کی بارش تھی۔ چند لمحات میں سب کچھ ڈھیر ہو گیا۔ بالاکوٹ سے ایک متاثرہ شخص نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں پید ل چل رہا تھا، اچانک کسی جھٹکے نے مجھے فضا میں اُچھالا اور میرے واپس زمیں پر آنے تک پورا بالاکوٹ مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ بس اتنی دیر میں کیا سے کیا ہو گیا۔
        اتنی تباہی، انسانی ہلاکتوں اور املاک کے ضیاع کے بعد ہم نے اس سانحے سے کیا سیکھا۔آج تلک ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ آزمائش تھی، یہ ہمارے گناہوں کی سزاءتھی یا کسی ارضیاتی عمل کا حصہ تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، قیاس آرائیاں اور تبصرے دو سال گزرنے کے باوجود جاری ہیں اور اگلے پچاس سالوں تک اس پر بات ہوتی رہے گی۔ مختلف آراءکے باوجود ایک بات مشترک ہے کہ یہ آفت جن علاقوں میں آئی ، وہاں کے لوگوں کے لےے قدرت کا انتباءاور عبرت کا سامان تھی۔ قیامت کے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے آپ پر بیتنے کے بعد ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوئی؟ کیا ہم پہلے جیسے انسان ہی ہیں یا ۸ اکتوبر ۵۰۰۲ئ کے بعد کوئی تبدیلی رونما ہو ئی ہے۔ کیا ہم دوسرے لوگوں کے بارے میں اب بھی ویسے ہی سوچتے ہیں جیسے ۸ اکتوبر ۵۰۰۲ئ سے پہلے سوچتے تھے۔ کیا دوسروں سے ہمارا رویہ ویسا ہے جیسا پہلے تھا، کیا ہم نے اپنی رشتہ داروں، عزیز و اقارب، پڑوسیوں، ملازمتوں اور ہم پیشہ افراد کے ساتھ اپنے معاملات، طرز عمل اور روئےے میں کوئی تبدیلی لائی ہے؟ کیا ہم مجموعی طور پر اللہ پر زیادہ توکل کرنے والے، دوسروں کو معاف کرنے والے، دوسروں کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے والے اور دوسروں کے لےے آسانیاں پیدا کرنے والے افراد میں شمار ہونے لگ گئے ہیں؟ کیا ہمارا تعلق باللہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کا تعین کرتے ہیں۔
                 پہلے اس سانحہ کی چند جھلکیاں ملاظہ کیجیے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ میرا تعلق باغ (کشمیر) سے ہے، اس لےے مناظر بھی باغ کے ہی پیش کروں گا۔ ۹ اکتوبر سحری کے وقت پورا باغ شہر خاموش تھا، میں تو اس امید سے وہاں چلا گیا کہ شائید روزہ رکھنے کے لےے سحری کا کوئی بندوبست ہو جائے گا۔ میں نے ابھی تک زلزلے کی تباہ کاریاں کھلی آنکھ سے نہیں دیکھیں تھیں۔ رات کو بارہ بجے پہنچے، سیاہ کا لا اندھیرا چھایا ہوا تھا، جن دو چار لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کے غمناک داستانیں زبانی سن رہا تھا، جو کچھ وہ بیان کر رہے تھے، مجھے اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ جب تک رات کا اندھیرا چھا یا رہا، یہ راز ہی رہا۔ اسی غلط فہمی کی بنیاد پر میں چند میل کا سفر طے کر کے اپنے گھر کی طرف جانے کے بجائے باغ (ض


¾لعی ہیڈکواٹر) چلا گیا، وہاں عمارتوں کے ملبے، انسانوں کی لاشوں اور ملبے تلے دبے ہوئے انسان کی آخری ہچکیوں کی مریلی سے آوازیں تھی، میں رات کے اندھیر میں واٹر سپلائی روڈ پر پڑے ملبے پر سے گزرتا گیا تاہم یہ پتہ نہ چل سکا کہ نیچے کیا ہے۔ شہر کے وسط میں سحرخوری کے کوئی امکانات نہ پا کر قریبی مسجد میں گیا تو وہ انسانی لاشوں اور بے جان بلکہ بے ہوش زخمیوں سے اٹی ہوئی تھی۔ مسجد سے ملحقہ مدرسہ بھی ہے جہاں لنگر خانے سے کچھ نہ کچھ مل جانے کی توقع تھی۔ میرے دو کزن یہاں ہی ہوتے ہیں، دونوں غائب تھے البتہ شفیق (کک) ملا جو اپنے اہل عیال کی خبر گیری کے لےے چکار جانے کے لےے ہمت باندھ رہا تھا۔ اس نے ہماری آمد کو خالی نہ جانے دیا اور مطبخ سے دو چار نا شپاتیاں لائیں اور چائے نما نیم گرم پانی پیش کیا۔ ہمارے لےے یہ سب کچھ فائیو سٹار سحری سے کم نہ تھا۔ اتنے میں صبح کی آذان ہوئی، جلدی جلدی مسجد کے ہال میں داخل ہوئے اور درجنوں لاشوں اور اٹھارہ بیس گھنٹوں سے ابتدائی طبی امداد سے محروم بے ہوش زخمیوں کے درمیان نماز ادا کرنے کا یہ پہلا اور ہوشربا تجربہ تھا۔

آئیے اپنے وطن میں تبدیلی کا آغاز کریں

پاکستان مشکلات سے دوچار ہے۔ سیاسی قیادت کرپٹ ہے۔فرقہ واریت، صوبائی عصبیت اور لسانی گروہ بندی جاری ہے۔ ہر طرف بدامنی، لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی کا دور، دورہ ہے۔ ایسے میں پڑھے لکھے پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ آگے پڑھین اور اپنے وطن کو دیانتدار قیادت کے سپرد کرے۔ نظام حکومت میں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے عملی اقدامات کریں اور عوام کو پریشانیوں اور مشکلات سے نکال سکیں۔

عوامی نمائندگی کون کرے؟

عوامی نمائندگی کون کرے؟
نقوش قلم ۔۔۔۔۔۔عطاء الرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com

وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا تفصیلی کالم گزشتہ دنوں اخبار میںشائع ہوا۔ جس میں اس امر پرزور دیا گیا ہے کہ عوامی نمائندگی صرف پارلیمان ہی کرتی ہے۔ انہوںنے مختلف دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے عوام کے منتخب نمائندے ہی دستور بناتے ہیں، وہی اس میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں اورپارلیمان ہی دستور کی تشریح اور تعبیر کرسکتی ہے۔ انہوں نے میڈیا، کالم نگاروں اور اینکرپرسن کی عوامی نمائندگی کو ہدف بنایا اور عدلیہ کی دستور کی تشریح اور تعبیر کے حق کو مسترد کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو ادارہ دستور بناتا ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار رکھتا ہے وہی دستور کی تعبیر کر سکتا ہے۔ وزیر موصوف کا یہ کہنا بجا ہے کہ معروف معنوں میں عوامی نمائندے وہی ہوتے ہیں ، جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کرایوان میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔میڈیا کو عوامی نمائندگی کا وہ مینڈیٹ حاصل نہیں جو ممبران پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ لیکن منتخب ہونے کے بعد ممبران اسمبلی کا کردار عموما عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ وہ پارٹی پالیسی اور ذاتی مفادات کی زد میں آکر عوام کی ترجمانی کرنے کے بجائے پارٹی پالیسی اور اپنے مفادات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔بقول وزیر موصوف میڈیا عوامی نمائندہ نہیں ہوتا لیکن جو کچھ میڈیا کہتا ہے وہ تو عوام کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ اس طرح عملا میڈیا ہی عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک معاملہ قانونی نمائندگی کا ہے، وہ ممبران اسمبلی کے پاس ہے اور ایک معاملہ عملی میدان کا ہے، جہاں ممبران اسمبلی خاموش ہیں اور میڈیا عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے دل کی بات کہہ رہا ہوتا ہے۔ اس کو یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ مہنگائی، کرپشن، قبائلی علاقوں میں فوج کشی، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان میں عدم استحکام جیسے مسائل پر ممبران اسمبلی خاموش ہیں۔ عوام ان سارے معاملات میں گہری تشویش میں مبتلاہیں اور میڈیا ان ایشوز پر عوامی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے صفحات گواہ ہیں کہ ہرمعاملے پر میڈیا نے عوام کی نمائندگی اور ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی عوام اور حکمرانوں کو آمنے سامنے بٹھا کر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ ہر مباحثے، گفتگو، ملاقات اور پروگرام میں حکومتی نمائندوں کو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔
    پوری دنیا کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ پارلیمنٹ دستور بناتی ہے اور اس میں ترمیم و اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ انتظامیہ اس دستورپر عمل کرواتی ہے۔ دستور پر عمل کرتے وقت مختلف نزاعی معاملات جنم لیتے ہیں اور دستور کی درست تشریح اور تعبیر درکار ہوتی ہے۔ جس کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدلیہ دستور کی روح کے مطابق قانونی کی حکمرانی، عوامی حقوق کی پاسداری اور انتظامیہ کی گرفت کو مدنظر رکھ کر دستور کی مناسب تعبیر اور تشریح کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اور پوری دنیا میں عدلیہ کے ذریعے دستور کی تعبیر اور تشریح کے نتیجے میں کوئی بحران پیدا نہیں ہوااور کہیں بھی عدلیہ کے حق تشریح و تعبیر کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس لیے وزیر موصوف کا یہ کہنا درست نہیں کہ جو ادارہ دستور بنانے اور ترمیم و اضافے کا حق رکھتا ہے وہ اس کی تعبیر کر سکتا ہے۔اگر یہ سارے اختیارات ایک جگہ جمع کر دئےے گئے تو پھر یکطرفہ ٹریفک سے سارا ملک مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔ انہیں بتلانے کی ضرورت ہے کہ غصہ جانے دیں،اپنے اختیارات کے چنگل سے باہر نکل کر جمہوری انداز میں سوچیں، اپنے آج کے بجائے آنے والے کل کے بارے میں فکر کریں، جب سارے اختیارات ایک ادارے کے پاس جمع ہوں گے تو پھر ان کی کون سنے گا۔
    کائرہ صاحب نے پورے اظہاریے میں میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی دفاع کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کے کارنامے کے طور پر پر جوش انداز میں پیش کیاہے۔ میثاق جمہوریت کے حوالے سے ان کی پارٹنر نون لیگ والے پانچ فیصد بھی مطمئن نہیں۔ جب اتحادی ہی مطمئن نہیں تو عوام کہاں خوش ہوں گے۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم، صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں تواز ن اور صوبائی خودمختاری کے حوالے سے کی گئیں ترامیم کو تاریخی دستاویز قرار دیا اور دستور 1973 اور قرار داد پاکستان کے مترادف قرار دیا۔ ” دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ گماں اچھا ہے” کے مصداق وہ جس قدر چاہیں خوش ہوں اور شادیانے بجائیں۔ عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ میڈیا نے ضرور اس اقدام کو سہرایا اور اسے حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے لیکن عوام نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ملک کے کسی کونے میں کوئی تقریب، کوئی جلسہ، کوئی ریلی اور کوئی معمولی رسپانس بھی نہیں دیا۔ عوام نے اسے حکمرانوں کے اختیارات کے کھیل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی۔
    کائرہ صاحب نے دستور کو ایک جیتی جاگتی دستاویز قرار دیتے ہوئے ا س کے اہمیت اجاگر کرنے کی کو شش کی۔انہیں کون یاد دلائے کہ دستور کو حکومت نے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا، ہمیشہ حکمرانوں نے ہی اس کا حلیہ بگاڑا۔ اس دستور کے خالق ذولفقار علی بھٹو نے اس میں درجن بھر ترامیم کر کے اس کی اصل روح کو مسخ کر دیا تھا، پھر ضیاء الحق کے دور میں اس پر نشتر چلائی گئی، نواز شریف نے چودھویں ترمیم سیکنڈوں میں پاس کروائی اور پھرمشرف دور میں سترویں ترمیم سے پیوندکاری کی گئی۔ اب موجودہ حکمرانوںنے اٹھارویں ترمیم کی، جو بہت اچھی ہے، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہوتا تو کوئی جھوٹ بولنے والا، عوامی دولت لوٹنے اور بیرون ملک منتقل کرنے والا،کوئی قرضے معاف کروانے والا ،کرپٹ اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والا اور جعلی ڈگری والا ممبر اسمبلی منتخب نہ ہوتا۔ اگر یہ متحرک دستاویز ہوتی تو پھر اس کی روح کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون کو طے شدہ مدت کے اندر قرآن و سنت کے مطابق استوار کیا جاتا، اردو دس سالوں میں اردو زبان کو ملک کی قومی اور دفتری زبان کے طور پراختیار کیا جاتا ہے۔ اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہے تو پھر آج ہزاروں پاکستانی لا پتہ کیوں ہیں، جو حکومتی اداروں نے قانون سے چھپ، چھپا کر کیوں پس زنداں رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں پر فوج کشی دستور پاکستان کی کس شق کے مطابق کی جا رہی ہے۔ وہ کون سا قانون ہے ، جس کی رو سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، ایمل کانسی اور دیکر ہم وطنوں کو دشمنوں کے حوالے کیا گیا۔ یہ دستور کے ساتھ مذاق حکمران شروع سے کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ میڈیا اور عدلیہ ہی ہے جو حکمرانوں کو دستور کی ایک، ایک سطر یاد کرواتے ہیں۔یہی دو ادارے حقیقی معنوں میں عوامی حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عوام انہی پر بھروسہ کرتے ہیں، ان ہی رجوع کرتے ہیں اور ان ہی سے داد رسی کی امید رکھتے ہیں۔ ممبران اسمبلی کے پاس لوگ رشوت لے کر جاتے ہیں اور ساتھ اپنے کاموں کی فہرست دیتے ہیں۔ معاشرے کے ناپسندیدہ لوگ اپنی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے اور قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کے لیے وزراء اور ممبران اسمبلی کے گرد جمع رہتے ہیں۔ عوام کو ممبران پارلیمنٹ سے کوئی اچھی توقع وابستہ نہیں اور نہ وہ ان کے پاس جاتے ہیں۔ یہ معاملہ موجودہ حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہر ایک حکمران جب تخت پر ہوتا ہے تو اسے میڈیا اور عدلیہ زہر لگتے ہیں اور جونہی اقتدار سے بیدخل کر دئے جاتے ہیں تو انہیں میڈیا اور عدلیہ ہی پناہ دیتی ہے اور یہی لوگ پھر ان کی وکالت بھی کرتے ہیں۔
    اگردستور ایک زندہ دستاویز ہے تو اس میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں بھی درج ہیں، جس وہ فراموش کر کے دستور سے صرف اپنے اختیارات، مراعات اور گنجائشیں تلاش کرتے ہیں۔ آج پورا سماج معاشرے میں بڑھتی ہوئی کرپشن سے بیزار ہے، مہنگائی سے لوگ عاجز آچکے ہیں، ریاستی اداروں اور معاشرے میں چھائے ہوئے غنڈوں کے ہاتھوں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، سندھ اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہیں اورقبائلی علاقوں میں بلا جواز بلا امتیاز سب لوگوں کو گولی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی کونسی شق پر عمل ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس پر کیوں خاموش ہیں۔کیا یہ خاموشی عوامی نمائندگی اور ترجمانی ہے۔ ان ایوانوں سے باہر نکل کر عوام کی بات ان کی زبان سے سنیئے اور دیکھیے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی ترجمانی ہے یا عوام کی۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کی نمائندگی اور ترجمانی کون کر رہا ہے۔ اصولی باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یادرکھنا چاہیے کہ جو دستور اختیارات اور مراعات دیتا ہے وہی دستور اختیارات کے حامل لوگو ں اور اداروں کی ذمہ داریوں کا بھی تعین کرتا ہے۔ سارے اختیارات اور مراعات ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مشروط ہوتے ہیں۔ ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے والے اختیارات اور مراعات کے حقدار نہیں قرار پاتے۔ حالات کے دباؤ کے تحت ایسے بااختیار لوگوں کو کچھ نہ کچھ مہلت مل رہی ہے، جو قدرت کی طرف سے ان کے لیے اصلاح احوال کی گنجائش ہے۔ اگر یہ خود کو درست نہیں کریں گے ، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہیوں کے مرتکب ہوں کے اور اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے دستور کوڈھال بنائیں گے تو پھر اس دستور میں درج بہت سے شقیں چیخ، چیخ کر انہیں ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف متوجہ کریں گی۔ جب تک دستور کو پوری روح کے ساتھ روڈ میپ نہیں بنایا جائے گا، ملک میں امن اور سکون میسر نہیں آئے گا۔ یہی دستور ہمیں کہتا ہے کہ قرآن و سنت ملک کا بالاترقانون ہوگا لیکن حکمرانوں کو دستور کی یہ شق نظر ہی نہیں آتی۔ پاکستان اسی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے۔ عوام کو امن، سکون، ترقی اور منزل قرآن وسنت کو بالا تر قانون بنائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔

اسلامی نظام عدل کی ایک جھلک

اسلامی نظام عدل کی ایک جھلک
عطا ء الرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com
00923122561900

    آج پوری انسانیت مشکلات سے دوچار ہے۔ ہرانسان دوسرے کی جان، مال اور عزت کے درپے ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار خود مسلمانوں کے ہاں کوئی ترجیح ہی نہیں رہے۔ مسلمان اپنے حقیقی خالق، مالک اور نفع و نقصان دینے والے، عزت،دولت، اولاد اور زندگی بخشنے والے رب سے بے نیاز ہوکر ایسے خداؤں کی پیروکاری کر رہے ہیں، جو کچھ بھی طاقت اور قوت نہیں رکھتے۔ ان کے احکامات مانتے ہیں، جو خود مجبور اور بے کس ہیں۔ ایسی قیادت کی اطاعت پر لگے ہوئے ہیں جو خود کرپٹ اور بد معاش ہے۔خدائے بزرگ و برتر اور ہادی عالم ، رحمت العالمین ؐکے دئیے ہوئے نظام حکومت کو عملا مسترد کر کے ایک ایسے نظام کی اطاعت کر رہے ہیں جو خود بے بس اور بے کس، شیطان صفت اور اپنے خالق کے گستاخ اور باغی بھگوڑوں کا تشکیل دیا ہوا ہے۔ یہی فرسودہ نظام نظام اور اس کی اطاعت کرناہماری ساری مشکلات اور مصائب کی جڑ ہے۔ آئیے! اس کافرانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کریں اور اللہ کی دھرتی پراللہ کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔اسلامی معاشرے اوراسلامی نظام زندگی کی ایک جھلک ایک تاریخی واقعے کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    دو نوجوان سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص! سیدنا عمرؓان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟ یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ سیدنا عمر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟ وہ شخص کہتا ہے ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ا ن کا باپ۔ کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر پوچھتے ہیں۔ یا عمر، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا، جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمر کہتے ہیں۔نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدرشریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر کو مطلب ہی کیا ہے کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمرؓپر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کو فافذکرنے کے معاملے پر عمر کوروک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرکا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آکھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔ وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین !اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں ا ن کو یہ بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔سیدنا عمرنے پوچھا کہ کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟ مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی توایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یازمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کے نفاذکے معاملے پر عمر سے ا ختلاف کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کے لئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔ مجلس میں موجودصحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمربھی متأثر ہیں کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیاجائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔خود سیدناعمرسر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو،نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
    عمرایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ابو ذر غفاری اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی۔ سیدنا عمر کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔عمرنے فرمایا جانتے ہو اسے؟ ابوذر بولے نہیں جانتا اسے۔ عمر نے پوچھا تو پھر کس طرح آپ ضمانت دے رہے ہو؟ ابوذر نے فرمایا ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا”۔ حضرت عمرؓ نے متوجہ کرنے ہو ئے کہا،ابوذردیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ سیدنا عمرسے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کرواپس آنے کیلئے۔
     تین راتوں کے بعد، عمر بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ابو ذر بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرکے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر سوال کرتے ہیں۔مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر مختصر جواب دیتے ہیں۔ابوذرآسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟یہ سچ ہے کہ ابوذرسیدنا عمرکے دل میں بستے ہیں، عمرسے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمردیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرکے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
    مغرب سے چند لمحے پہلے وہ شخص آپہنچا، بے ساختہ حضرت عمرکے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی پورا مجمع اللہ اکبر کے نعروں سے گونچ اٹھا۔عمراس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے اللہ کے بندے! اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا۔ امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ،بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں حاضر ہوں، اپنے بچوں کوپرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جہاں نہ کسی درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔سیدنا عمرنے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟ابوذرنے کہا، اے عمر، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔سید عمرنے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوںجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
    سیدناعمر بے ساختہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔اے نوجوانو!تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔اے ابو ذر! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔ امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرکے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔
    اسلام کی ایک جھلک اس واقعے میں نظر آرہی ہے۔یہ اسلام کی عالیشان عمارت میں ایک بہت ہی باریک سوراخ سے نظر آنے والا منظر ہے۔ اگر کوئی کھڑکی یا دروازہ کھول کر دیکھا جائے تو انسان حیرت زدہ ہو جائے گا کہ اس دنیا میں اس طرح کا نظام زندگی بھی کبھی رائج رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ منظر دعوت فکر ہے کہ وہ آرام و آسائش کی زندگی سے نکل کر ایک ایسے منصفانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنی تمام تر توانیاں صرف کریں تاکہ پوری انسانیت کوظلم و جبر کے چنگل سے نکال کر امن، سکون،عدل، مساوات اوردنیا و آخرت کی خوشحالی سے ہمکنار کیا جاسکے۔ یہی مسلمانوں کا مقصد وجود ہے اور یہی مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے، جس کی ادائیگی کے بغیر نہ انہیں دنیا میں انہیں عزت اور سربلندی مل سکتی ہے اور نہ وہ آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو کر جنت کے حقدار بن سکتے ہیں۔