حکومتی رویہ کالم
زلزلہ ۸ اکتوبر ۲۰۰۸
¾لعی ہیڈکواٹر) چلا گیا، وہاں عمارتوں کے ملبے، انسانوں کی لاشوں اور ملبے تلے دبے ہوئے انسان کی آخری ہچکیوں کی مریلی سے آوازیں تھی، میں رات کے اندھیر میں واٹر سپلائی روڈ پر پڑے ملبے پر سے گزرتا گیا تاہم یہ پتہ نہ چل سکا کہ نیچے کیا ہے۔ شہر کے وسط میں سحرخوری کے کوئی امکانات نہ پا کر قریبی مسجد میں گیا تو وہ انسانی لاشوں اور بے جان بلکہ بے ہوش زخمیوں سے اٹی ہوئی تھی۔ مسجد سے ملحقہ مدرسہ بھی ہے جہاں لنگر خانے سے کچھ نہ کچھ مل جانے کی توقع تھی۔ میرے دو کزن یہاں ہی ہوتے ہیں، دونوں غائب تھے البتہ شفیق (کک) ملا جو اپنے اہل عیال کی خبر گیری کے لےے چکار جانے کے لےے ہمت باندھ رہا تھا۔ اس نے ہماری آمد کو خالی نہ جانے دیا اور مطبخ سے دو چار نا شپاتیاں لائیں اور چائے نما نیم گرم پانی پیش کیا۔ ہمارے لےے یہ سب کچھ فائیو سٹار سحری سے کم نہ تھا۔ اتنے میں صبح کی آذان ہوئی، جلدی جلدی مسجد کے ہال میں داخل ہوئے اور درجنوں لاشوں اور اٹھارہ بیس گھنٹوں سے ابتدائی طبی امداد سے محروم بے ہوش زخمیوں کے درمیان نماز ادا کرنے کا یہ پہلا اور ہوشربا تجربہ تھا۔
آئیے اپنے وطن میں تبدیلی کا آغاز کریں
عوامی نمائندگی کون کرے؟
نقوش قلم ۔۔۔۔۔۔عطاء الرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com
پوری دنیا کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ پارلیمنٹ دستور بناتی ہے اور اس میں ترمیم و اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ انتظامیہ اس دستورپر عمل کرواتی ہے۔ دستور پر عمل کرتے وقت مختلف نزاعی معاملات جنم لیتے ہیں اور دستور کی درست تشریح اور تعبیر درکار ہوتی ہے۔ جس کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدلیہ دستور کی روح کے مطابق قانونی کی حکمرانی، عوامی حقوق کی پاسداری اور انتظامیہ کی گرفت کو مدنظر رکھ کر دستور کی مناسب تعبیر اور تشریح کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اور پوری دنیا میں عدلیہ کے ذریعے دستور کی تعبیر اور تشریح کے نتیجے میں کوئی بحران پیدا نہیں ہوااور کہیں بھی عدلیہ کے حق تشریح و تعبیر کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس لیے وزیر موصوف کا یہ کہنا درست نہیں کہ جو ادارہ دستور بنانے اور ترمیم و اضافے کا حق رکھتا ہے وہ اس کی تعبیر کر سکتا ہے۔اگر یہ سارے اختیارات ایک جگہ جمع کر دئےے گئے تو پھر یکطرفہ ٹریفک سے سارا ملک مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔ انہیں بتلانے کی ضرورت ہے کہ غصہ جانے دیں،اپنے اختیارات کے چنگل سے باہر نکل کر جمہوری انداز میں سوچیں، اپنے آج کے بجائے آنے والے کل کے بارے میں فکر کریں، جب سارے اختیارات ایک ادارے کے پاس جمع ہوں گے تو پھر ان کی کون سنے گا۔
کائرہ صاحب نے پورے اظہاریے میں میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی دفاع کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کے کارنامے کے طور پر پر جوش انداز میں پیش کیاہے۔ میثاق جمہوریت کے حوالے سے ان کی پارٹنر نون لیگ والے پانچ فیصد بھی مطمئن نہیں۔ جب اتحادی ہی مطمئن نہیں تو عوام کہاں خوش ہوں گے۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم، صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں تواز ن اور صوبائی خودمختاری کے حوالے سے کی گئیں ترامیم کو تاریخی دستاویز قرار دیا اور دستور 1973 اور قرار داد پاکستان کے مترادف قرار دیا۔ ” دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ گماں اچھا ہے” کے مصداق وہ جس قدر چاہیں خوش ہوں اور شادیانے بجائیں۔ عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ میڈیا نے ضرور اس اقدام کو سہرایا اور اسے حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے لیکن عوام نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ملک کے کسی کونے میں کوئی تقریب، کوئی جلسہ، کوئی ریلی اور کوئی معمولی رسپانس بھی نہیں دیا۔ عوام نے اسے حکمرانوں کے اختیارات کے کھیل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی۔
کائرہ صاحب نے دستور کو ایک جیتی جاگتی دستاویز قرار دیتے ہوئے ا س کے اہمیت اجاگر کرنے کی کو شش کی۔انہیں کون یاد دلائے کہ دستور کو حکومت نے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا، ہمیشہ حکمرانوں نے ہی اس کا حلیہ بگاڑا۔ اس دستور کے خالق ذولفقار علی بھٹو نے اس میں درجن بھر ترامیم کر کے اس کی اصل روح کو مسخ کر دیا تھا، پھر ضیاء الحق کے دور میں اس پر نشتر چلائی گئی، نواز شریف نے چودھویں ترمیم سیکنڈوں میں پاس کروائی اور پھرمشرف دور میں سترویں ترمیم سے پیوندکاری کی گئی۔ اب موجودہ حکمرانوںنے اٹھارویں ترمیم کی، جو بہت اچھی ہے، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہوتا تو کوئی جھوٹ بولنے والا، عوامی دولت لوٹنے اور بیرون ملک منتقل کرنے والا،کوئی قرضے معاف کروانے والا ،کرپٹ اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والا اور جعلی ڈگری والا ممبر اسمبلی منتخب نہ ہوتا۔ اگر یہ متحرک دستاویز ہوتی تو پھر اس کی روح کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون کو طے شدہ مدت کے اندر قرآن و سنت کے مطابق استوار کیا جاتا، اردو دس سالوں میں اردو زبان کو ملک کی قومی اور دفتری زبان کے طور پراختیار کیا جاتا ہے۔ اگر یہ دستور جیتی جاگتی دستاویز ہے تو پھر آج ہزاروں پاکستانی لا پتہ کیوں ہیں، جو حکومتی اداروں نے قانون سے چھپ، چھپا کر کیوں پس زنداں رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں پر فوج کشی دستور پاکستان کی کس شق کے مطابق کی جا رہی ہے۔ وہ کون سا قانون ہے ، جس کی رو سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، ایمل کانسی اور دیکر ہم وطنوں کو دشمنوں کے حوالے کیا گیا۔ یہ دستور کے ساتھ مذاق حکمران شروع سے کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ میڈیا اور عدلیہ ہی ہے جو حکمرانوں کو دستور کی ایک، ایک سطر یاد کرواتے ہیں۔یہی دو ادارے حقیقی معنوں میں عوامی حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عوام انہی پر بھروسہ کرتے ہیں، ان ہی رجوع کرتے ہیں اور ان ہی سے داد رسی کی امید رکھتے ہیں۔ ممبران اسمبلی کے پاس لوگ رشوت لے کر جاتے ہیں اور ساتھ اپنے کاموں کی فہرست دیتے ہیں۔ معاشرے کے ناپسندیدہ لوگ اپنی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے اور قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کے لیے وزراء اور ممبران اسمبلی کے گرد جمع رہتے ہیں۔ عوام کو ممبران پارلیمنٹ سے کوئی اچھی توقع وابستہ نہیں اور نہ وہ ان کے پاس جاتے ہیں۔ یہ معاملہ موجودہ حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہر ایک حکمران جب تخت پر ہوتا ہے تو اسے میڈیا اور عدلیہ زہر لگتے ہیں اور جونہی اقتدار سے بیدخل کر دئے جاتے ہیں تو انہیں میڈیا اور عدلیہ ہی پناہ دیتی ہے اور یہی لوگ پھر ان کی وکالت بھی کرتے ہیں۔
اگردستور ایک زندہ دستاویز ہے تو اس میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں بھی درج ہیں، جس وہ فراموش کر کے دستور سے صرف اپنے اختیارات، مراعات اور گنجائشیں تلاش کرتے ہیں۔ آج پورا سماج معاشرے میں بڑھتی ہوئی کرپشن سے بیزار ہے، مہنگائی سے لوگ عاجز آچکے ہیں، ریاستی اداروں اور معاشرے میں چھائے ہوئے غنڈوں کے ہاتھوں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، سندھ اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہیں اورقبائلی علاقوں میں بلا جواز بلا امتیاز سب لوگوں کو گولی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی کونسی شق پر عمل ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس پر کیوں خاموش ہیں۔کیا یہ خاموشی عوامی نمائندگی اور ترجمانی ہے۔ ان ایوانوں سے باہر نکل کر عوام کی بات ان کی زبان سے سنیئے اور دیکھیے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی ترجمانی ہے یا عوام کی۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کی نمائندگی اور ترجمانی کون کر رہا ہے۔ اصولی باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یادرکھنا چاہیے کہ جو دستور اختیارات اور مراعات دیتا ہے وہی دستور اختیارات کے حامل لوگو ں اور اداروں کی ذمہ داریوں کا بھی تعین کرتا ہے۔ سارے اختیارات اور مراعات ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مشروط ہوتے ہیں۔ ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے والے اختیارات اور مراعات کے حقدار نہیں قرار پاتے۔ حالات کے دباؤ کے تحت ایسے بااختیار لوگوں کو کچھ نہ کچھ مہلت مل رہی ہے، جو قدرت کی طرف سے ان کے لیے اصلاح احوال کی گنجائش ہے۔ اگر یہ خود کو درست نہیں کریں گے ، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہیوں کے مرتکب ہوں کے اور اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے دستور کوڈھال بنائیں گے تو پھر اس دستور میں درج بہت سے شقیں چیخ، چیخ کر انہیں ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف متوجہ کریں گی۔ جب تک دستور کو پوری روح کے ساتھ روڈ میپ نہیں بنایا جائے گا، ملک میں امن اور سکون میسر نہیں آئے گا۔ یہی دستور ہمیں کہتا ہے کہ قرآن و سنت ملک کا بالاترقانون ہوگا لیکن حکمرانوں کو دستور کی یہ شق نظر ہی نہیں آتی۔ پاکستان اسی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے۔ عوام کو امن، سکون، ترقی اور منزل قرآن وسنت کو بالا تر قانون بنائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
اسلامی نظام عدل کی ایک جھلک
عطا ء الرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com
00923122561900
آج پوری انسانیت مشکلات سے دوچار ہے۔ ہرانسان دوسرے کی جان، مال اور عزت کے درپے ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار خود مسلمانوں کے ہاں کوئی ترجیح ہی نہیں رہے۔ مسلمان اپنے حقیقی خالق، مالک اور نفع و نقصان دینے والے، عزت،دولت، اولاد اور زندگی بخشنے والے رب سے بے نیاز ہوکر ایسے خداؤں کی پیروکاری کر رہے ہیں، جو کچھ بھی طاقت اور قوت نہیں رکھتے۔ ان کے احکامات مانتے ہیں، جو خود مجبور اور بے کس ہیں۔ ایسی قیادت کی اطاعت پر لگے ہوئے ہیں جو خود کرپٹ اور بد معاش ہے۔خدائے بزرگ و برتر اور ہادی عالم ، رحمت العالمین ؐکے دئیے ہوئے نظام حکومت کو عملا مسترد کر کے ایک ایسے نظام کی اطاعت کر رہے ہیں جو خود بے بس اور بے کس، شیطان صفت اور اپنے خالق کے گستاخ اور باغی بھگوڑوں کا تشکیل دیا ہوا ہے۔ یہی فرسودہ نظام نظام اور اس کی اطاعت کرناہماری ساری مشکلات اور مصائب کی جڑ ہے۔ آئیے! اس کافرانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کریں اور اللہ کی دھرتی پراللہ کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔اسلامی معاشرے اوراسلامی نظام زندگی کی ایک جھلک ایک تاریخی واقعے کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دو نوجوان سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص! سیدنا عمرؓان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟ یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ سیدنا عمر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟ وہ شخص کہتا ہے ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ا ن کا باپ۔ کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر پوچھتے ہیں۔ یا عمر، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا، جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمر کہتے ہیں۔نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدرشریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر کو مطلب ہی کیا ہے کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمرؓپر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کو فافذکرنے کے معاملے پر عمر کوروک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرکا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آکھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔ وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین !اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں ا ن کو یہ بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔سیدنا عمرنے پوچھا کہ کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟ مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی توایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یازمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کے نفاذکے معاملے پر عمر سے ا ختلاف کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کے لئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔ مجلس میں موجودصحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمربھی متأثر ہیں کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیاجائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔خود سیدناعمرسر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو،نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
عمرایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ابو ذر غفاری اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی۔ سیدنا عمر کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔عمرنے فرمایا جانتے ہو اسے؟ ابوذر بولے نہیں جانتا اسے۔ عمر نے پوچھا تو پھر کس طرح آپ ضمانت دے رہے ہو؟ ابوذر نے فرمایا ”میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا”۔ حضرت عمرؓ نے متوجہ کرنے ہو ئے کہا،ابوذردیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ سیدنا عمرسے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کرواپس آنے کیلئے۔
تین راتوں کے بعد، عمر بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ابو ذر بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرکے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر سوال کرتے ہیں۔مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر مختصر جواب دیتے ہیں۔ابوذرآسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟یہ سچ ہے کہ ابوذرسیدنا عمرکے دل میں بستے ہیں، عمرسے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمردیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرکے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لمحے پہلے وہ شخص آپہنچا، بے ساختہ حضرت عمرکے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی پورا مجمع اللہ اکبر کے نعروں سے گونچ اٹھا۔عمراس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے اللہ کے بندے! اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا۔ امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ،بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں حاضر ہوں، اپنے بچوں کوپرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جہاں نہ کسی درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔سیدنا عمرنے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟ابوذرنے کہا، اے عمر، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔سید عمرنے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوںجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
سیدناعمر بے ساختہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔اے نوجوانو!تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔اے ابو ذر! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔ امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرکے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔
اسلام کی ایک جھلک اس واقعے میں نظر آرہی ہے۔یہ اسلام کی عالیشان عمارت میں ایک بہت ہی باریک سوراخ سے نظر آنے والا منظر ہے۔ اگر کوئی کھڑکی یا دروازہ کھول کر دیکھا جائے تو انسان حیرت زدہ ہو جائے گا کہ اس دنیا میں اس طرح کا نظام زندگی بھی کبھی رائج رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ منظر دعوت فکر ہے کہ وہ آرام و آسائش کی زندگی سے نکل کر ایک ایسے منصفانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنی تمام تر توانیاں صرف کریں تاکہ پوری انسانیت کوظلم و جبر کے چنگل سے نکال کر امن، سکون،عدل، مساوات اوردنیا و آخرت کی خوشحالی سے ہمکنار کیا جاسکے۔ یہی مسلمانوں کا مقصد وجود ہے اور یہی مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے، جس کی ادائیگی کے بغیر نہ انہیں دنیا میں انہیں عزت اور سربلندی مل سکتی ہے اور نہ وہ آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو کر جنت کے حقدار بن سکتے ہیں۔