عالمی یوم یتامیٰ

عالمی یوم یتامیٰ
نقوش قلم ۔۔۔عطاالرحمن چوہان
chohanpk@gmail.com

موجودہ دور میں ایام منانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ مدر ڈے، فادر ڈے، ارتھ ڈے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں روز

کرنے چاہیے ان کی یاددہانی سال میں ایک بار تو ہو ہی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے 2013 میں ۱۵ رمضان کے دن کو ’’یوم یتیم‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ او آئی سی کی قرار دادمیں یتیم بچوں کی دیکھ بھال پر رکن ممالک اور مسلم این جی اوز پر زور دیا کہ مسلم ممالک باالخصوص دنیا بھر میں باالعموم دہشت گردی، بدامنی، قدرتی آفات اور دیگر وجوہات کی بنا پر شرح اموات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور یتیم بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اس لیے ان کی دیکھ بھال کا مستقل نظام وضع کیا جائے۔ گزشتہ دوسالوں سے اسلامی دنیا میں یہ دن پورے اہتمام سے منایا جارہا ہے۔

پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد تقریبا ۴۲ لاکھ ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں بشمول پرائمری، مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹیوں میں ان یتیم بچوں کے لیے نہ تو کوئی کوٹہ مقرر ہے اور نہ فیس میں کمی کا کوئی قانون بن سکا۔ گزشتہ ۲۰ سالوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکارہے ، جس کی وجہ سے یتیم بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ امر باالخصوص توجہ طلب ہے کہ بیرونی جارحیت اور اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بن جانے والے شہریوں کے بچوں کی دیکھ بھال کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں۔ آزادکشمیر میں کتنے ایسے شہید ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی جانیں دیں اور ان کے معصوم بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہیں لیکن وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کی بچوں کی کفالت کا کوئی انتظام ہم نہیں کر پائے۔ کنٹرول لائن پر آباد پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی براہ راست بھارتی گولوں کی زد میں ہے اور کتنے لوگ بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں اور کتنے بچے والدین کی شفقت سے محروم ہو رہے ہیں، ایک ہم ہیں کہ خبر پڑھ کر چند سیکنڈ افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور پھر بھنگ پی کر سو جاتے ہیں۔ حکمران تو اقتدار کے مزے لینے سے فارغ نہیں ہوتے لیکن عوامی سطح پر بھی کہیں کوئی تحریک نظر نہیں آرہی، کوئی منظم کوشش نہیں کی جارہی۔ ذرائع ابلاغ منفی پہلو کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کہیں سے ان یتیم بچوں کے لیے آواز اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔
او آئی سی کا شکریہ کہ اس نے ہمیں کم از کم ایک دن منانے اور ان یتیم بچوں کے حالات پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی خدمت کرنے والی چند ایک این جی اوز نے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ تشکیل دیا ہے۔جو اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یتیم بچوں کی خدمت کررہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ساری این جی اوز مل کر بھی اب تک دو لاکھ سے زائد بچوں کو اپنے نیٹ ورک میں نہیں لاسکیں۔ایک کام کا آغاز تو ہو چکا ہے اور دن بدن پیش رفت جاری ہے۔ مجھے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ایس او ایس ویلیج اور الخدمت فاونڈیشن کے آغوش ہومز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یقیناًیہ ادارے بہت معیاری ہیں لیکن ان میں موجود بچوں کی تعداد چند ہزار ہے اور ہمارے سامنے ۴۲ لاکھ بچے موجود ہیں۔ 
یہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو وہ کل ہمارے لیے سرمایہ بننے کے بجائے رہزن اور ڈاکو بننے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے منطقی نتیجے کے طور پر ہمارے بچے ان رہزنوں کا شکار ہوں گے۔ یہ کتنا تکلیف دہ پہلو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان یتیم بچوں کی کفالت دراصل اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کام اتنا مقدس ہے کہ جہاں اپنے بچے محفوظ ہوں گے وہاں ہمیں دنیا اور آخرت کا اطمینان اور جنت کی بشارت بھی ملے گی۔ دلوں کو سکوں اور آخرت میں راحت کیا کم صلہ ہے۔ 
انفرادی کوششوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس لیے ریاستی سطح پر اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرائمری سے سیکنڈری سطح پر یتیم بچوں کو سرکاری اداروں میں مفت داخلہ دیا جائے اور کتب و سٹیشنری ہر سکول کا صدرمعلم مقامی کمیونٹی کے تعاون سے فراہم کرے۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کے لیے دس فیصد کوٹہ مقرر کریں، جن کو فری تعلیم دی جائے۔ میٹرک میں اچھے نمبر لینے والے یتیم بچوں کے لیے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں کوٹہ مقرر کیا جائے اور سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں یتیم بچوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یتیم بچوں کا علاج معالجہ مفت ہو اور نجی ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ہاں آنے والے مریضوں کا دس فیصد تناسب سے یتیم بچوں کا مفت علاج کریں اور ہرماہ ان تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے عمل درآمد کی رپورٹ لی جائے۔اس طرح کاروباری اداروں (قومی اور ملٹی نیشنل) کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی آمدن کا ایک فیصد یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کریں گے اور اس مد میں خرچ کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پابند کیا جائے کہ ہر این جی او اپنے ہاں یتیم بچوں کا شعبہ قائم کرے گی اور اپنے وسائل کا ایک حصہ اس شعبے کے لیے وقف کرے گی۔
ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے اشتراک سے یتیم بچوں کے لیے فنڈریزنگ کی جائے اور ذرائع ابلاغ کو پابند کیا جائے کہ وہ یتیم بچوں کی کفالت کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ عوامی بیداری کے لیے ہر میڈیا ہاوس روزانہ کم از کم دس منٹ کفالت یتیم کے لیے وقف کرے۔ مختلف مواقع پر خصوصی فیچرز کی اشاعت اور یتیم بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ اس طرح معاشرے میں اس مقدس کام کی اہمیت اجاگر ہو گی اور صاحب خیر کی بڑی تعداد اس کام کی سرپرستی کرنے لگے گی۔ 
سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت میں بھی ایک فیصد کوٹہ یتیم بچوں کے لیے وقف کیا جائے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور اپنے خاندانوں کے کفیل بن سکیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یتیم بچوں کے مسائل پر تسلسل کے ساتھ تقریبات کا انعقاد کیا جائے اور کفالت یتیم کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔وفاقی سطح پر کفالت یتیم کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نفاذ کیا جائے ۔ جو افراد یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہوں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

الخدمت فاونڈیشن کے قائدین اور رضاکاروں کے نام

عطاالرحمن چوہان

chohanpk@gmail.com
           الخدمت فاونڈیشن پاکستان خدمت خلق کے میدان کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ جس کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ الخدمت مقامی وسائل سے اہل وطن کے زخموں پر مرہم رکھنے کا نام ہے۔ الخدمت فاونڈیشن یتیم اور بے سہارا بچوں کے کفیل کا نام ہے۔ ملک بھر میں پینے کا صاف پانی بلا تخصیص فراہم کرنے کا نام ہے۔ الخدمت فاونڈیشن ذہین اور مستحق طلبہ و طالبات کے کفیل کا نام ہے۔ الخدمت ہر مشکل گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ، قدم بہ قدم رہنے کا نام ہے۔ چترال سے خضدار تک ہر قریے اور ہر شہر میں موجود الخدمت کے والینٹرز (رضاکار) خدائی خدمت گار ہیں، جو کسی سے کوئی صلہ اور کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔یہ وہ مردان خدا مست ہیں جودوسروں کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ تج دیتے ہیں۔ 2005 کا زلزلہ گواہ ہے کہ باغ (آزادکشمیر)کے رضا کار عثمان انور اپنی والدہ اور اپنے لخت جگر کو منوں مٹی کے حوالے کرکے اگلے ہی لمحے الخدمت فاونڈیشن کے کمیپ میں متاثرین زلزلہ کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ مظفرآباد میں شیخ عقیل الرحمن کو کون نہیں جانتا وہ اپنے جوان سال بیٹے کو دفن کرنے کے بعد گھر نہیں گئے بلکہ الخدمت فاونڈیشن کے ریلیف کیمپ میں متاثرین کی خدمت میں جت گئے اور کئی ماہ تک انہیں اپنے گھر اور بال بچوں کی خبر گیری کی فرصت نہیں ملی۔ میںزلزلے کی اطلاع ملتے ہیں میں اپنے آبائی گاوں باغ پہنچا، میرا گھر بھی پورے باغ کی طرح مٹی کا ڈھیر بنا ہوا تھا، والدین عمرے کی سعادت کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تھے۔ میرے بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی کھلے آسمان تلے آفٹرشاکس کے خوف میں لپٹےرمضان کے مشکل ترین روزے رکھ رہے تھے۔ اگلی صبح جب میں مین شاہراہ پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ میں تو ابھی اپنوں کے زخم بھی نہیں دیکھ پایا تھا اور نہ کسی دوسرے تک پہنچ پایا تھا، سڑک پر پہنچتے ہی دیکھتا ہوں کہ الخدمت فاونڈیشن کے کارکنان راولپنڈی سے ٹرکوں کی لمبی قطاروں پر لہراتے سبز ہلالی پرچموں کے سائے میں باغ کے متاثرین کی زخموں پر مرہم رکھنے کشاں کشاں باغ کی طرف روان دواں تھے۔ باغ پہنچا تویہ دیکھ کر مزید حیرت ہوئی کہ راولپنڈی کے ایک سنئیر اٹیمی سائنسدان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیما الخدمت ہسپتال ٹینٹوں میں قائم کرکے ڈاکٹروں کی ایک معقول تعداد کے ساتھ تڑپتے اور بلکتے مریضوں کی زخموں پر مرہم پٹی کررہے تھے۔ باغ کا اکلوتا سرکاری ہسپتال ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا اور سرکاری ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف اپنوں کی لاشیں سمیٹ رہے تھے،ایسے میں ملک کے مختلف حصوں سے ڈاکٹروں اورلیڈی ڈاکٹروں، سپشلسٹس اور پیرامیڈیکل سٹاف کے سینکڑوں رضاکارپیما، الخدمت ہسپتال کے خیموں میں مصروف کار تھے۔ تب باغ میں نہ لینڈ لائن فون کام کرتے تھے اور نہ موبائل فون کی سروس میسر تھی، یوں یہ سارے لوگ اپنے گھروں سے بہت دور، مواصلاتی رابطے میں بھی نہیں تھے۔ زلزلے کے جھٹکے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔کیا لوگ تھے، انسان نما فروشتے کہ جن کو اپنے گھروں کی فکر بھی نہ تھی۔ ابوعمیرزاہد دوسرے دن باغ پہنچے تھے اور پیما ہسپتال کے خیمے اپنے ہاتھوں سے نصب کررہے تھے، تیسرے دن ان کی اہلیہ بچوں کو کسی رشتہ دار کے پاس چھوڑ کر پیما ہسپتال میں خواتین مریضوں کی تیمارداری میں جت گئیں۔ ایسے لوگ اور ایسے مناظر چشم فلک کو خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔
یہی معاملہ آزادکشمیراور کے پی کے کے دیگرمتاثرہ علاقوں کا تھا۔ ملک بھر سے الخدمت فاونڈیشن کی مردان خدامست اپنے گھربار چھوڑ کر پہنچے اورراتون رات ریلیف کیمپ اور جدید ترین ہسپتال قائم کرکے وہ معجزہ دکھا گئے، ایک ایسی تاریخ اپنے خون جگر سے رقم کرگئے کہ رہتی دنیاتک ان کی داستان عشق ومستی رقم کی جاتی رہے گی۔تین ماہ تک دن اور رات کی تفریق کے بغیر مسلسل بحالی کی سرگرمیاں اور زخموں سے چوربچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کی مرہم پٹی، آپریشن اورعلاج معالجےمیں جتے ہوئے یہ لوگ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے۔
                آزادکشمیر میں الخدمت فاونڈیشن کی یہ پہلی اورتاریخ ساز سرگرمی تھی۔ جس نے اہل کشمیر کے قلوب واذہان میں انمٹ نقوش رقم کیے۔ میں آج پیما الخدمت ہسپتال باغ کے درودیوار کو دیکھتا ہوں تو مجھے برادرم ابوعمیر زاہد اور ان کی اہلیہ اس ہسپتال کے لیے خمیے گاڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کئی راتوں سے جاگنے کے باعث باہر نکلتی ہوئی آنکھیں دکھائی دیتی ہیں۔تڑپتے اور بلکتے انسانوں کی چیخ و پکار میں مرہم رکھنے والے وہ فرشتہ صفت انسان نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتے،جو رات کی تاریکی میں پتہ نہین کب اور کیسے وہاں پہنچ گئے تھے۔
            زلزلے میں یتیم ہوجانے والے معصوم بچوں کو جب غیر مسلم این جی اوز ہتھیانے لگیں تو قاضی حسین احمد ؒ نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے فوری طورپر ان یتیم کو سہارا دینے اور غیر مسلموں کی دسترس سے بچانے کے لیے ڈاکٹر حفیظ الرحمن (سابق صدرالخدمت فاونڈیشن پاکستان) کو ہدایت کی کہ ان بچوں کو الخدمت اپنی آغوش میں لینے کا اہتمام کرے۔ اس ویژن پر پہلا آغوش مرکز اٹک میں قائم ہوا، جس میں متاثرین زلزلہ یتیم بچوں کی پرورش کا آغاز کیا گیا۔ آج وہ بچے میڈیکل، انجنیئرنگ اور دیگرشعبہ جات میں ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
       یہ روداد تو بہت طویل ہے تاہم یہ مشاہدات محض تذکیر کے لیے رقم ہوئے۔ مجھے آج الخدمت فاونڈیشن سے وابستہ عہدیداروں، ہمہ وقتی کارکنان، رضا کاروں (والینٹرز) اور جزوی والینٹرز کی خدمت میں یہ عرض کرنا  ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک فرد بھی اپنے کوشش اور خواہش سے الخدمت سے وابستہ نہیں ہوا بلکہ ہمیں اپنے نظم نے کسی نہ کسی طور اس کام کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ نامزدگی رب العالمین کا احسان ہے کہ ہمیں ایک ایسے کام کے لیے چنا گیا ہے جو ہمارے رب کو بھی محبوب ہے اورہادی دوعالم، رحمت العالمین کو بھی محبوب ہے۔ یہ ہم سب کےلیے نعمت عظمی ہے۔ ہمیں اس وابستگی اور تعلق داری پر فخرہے اوراس کے ساتھ وابستگی کا ایک ایک لمحہ کامیاباں سمیٹنے کا نادر موقع ہے۔ نہ تو زندگی کا کوئی بھروسہ ہے اور نہ اس وابستگی کی کوئی مدت متعین ہے، اس لیے میسر وقت کے ایک ایک لمحےکو توشہ آخرت بنانےکے لیے مثالی رضاکار بننے کی کوشش کریں۔
          یاد رکھیے آج ہمیں جو الخدمت فاونڈیشن میسر آئی ہے،اس کا ہمیں کہیں تعارف نہیں کروانا پڑتا۔ ہمیں اس کی سرگرمیوں کی بھی  تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے پیش رو خدمت خلق کی ایسی مثالیں قائم کرگئے ہیں کہ بس نام ہی کافی ہے۔ اس سال آزادکشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ڈونرکانفرنسوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ الخدمت فاونڈیشن کو اہل وطن کا اعتماد حاصل ہے۔ابھی تو ہم نے اپنی آبادی کے ایک فیصدتک رسائی حاصل نہیں کی تب بھی انہوں نے ہماری جھولیاں اپنے مال، اپنے اعتماد اور اپنی محبتوں سے بھر دی ہیں۔
       یاد رکھیے۔ اب ہمارے امتحان کا آغاز ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی تجوریاں ہمارے حوالے کردی ہیں، وہ ہم سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر مشکل مرحلے میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کے ہر یتیم کو ہماری آغوش میں دیکھنے کے متمنی ہیں، ہرضروت مند اور ہر مستحق کو مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ٹریفک کے اژدھام سے آفاتی سماوی تک ہر مرحلے پر وہ ہماری موجودگی چاہتے ہیں۔
       یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ ہماری صلاحیتوں، ہماری کمٹمنٹ، ہمارے اخلاص اورہماری کارکردگی کا امتحان ہے۔ ہمیں محض کام نہیں کرنا بلکہ بہترین کام کرنا ہے۔ اس بہترین کے لیے اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنا ہے، اپنی پسند اور ناپسند کو مٹانا ہے، اپنے مزاجوں اور اپنے رویوں کو بدلنا ہے۔ اپنی استعدادکار میں برق رفتاری سے اضافہ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے متعلقہ شعبوں میں ایکسیلینس پیداکرنا ہے۔ اپنےکاموں میں شفافیت کی مثال بننا ہے۔ ہمیں ایسے افراد کے ساتھ ٹیم بن کر چلنے کا سلیقہ سیکھنا ہے جن کو ہم ایک لمحہ بھی شاید برداشت نہ کرسکتے ہوں۔ ہمیں دوسروں کی کارکردگی کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینی ہے۔ ہمیں قوم کے اعتماد پر پورا اترنا ہے ۔ ایک ایسی قوم جو کرپٹ مافیا کے چنگل میں بال بال پھنسی ہوئی ہے ۔ جس کا بچہ بچہ غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ جس کے غریب کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ دوائی کے ایک گولی ۔ جن کے دکھوں کی فہرست مرتب کرنا محال ہے۔ جو سود کے بے رحم اقتصادی شکنجے میں کس دئیے گئے ہیں، جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ جہاں ظلم کی اندھیر ی رات کے سیاہ بادلوں نے امید اور آس کو مسل کر رکھ دیا ہے۔  جس کی حاملہ عورتیں زچگی کے ہاتھوں موت سے ہمکنا ر ہو رہی  ہیں ۔ جس کے بچے کم خوراک اور صحت کی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر قصائیوں کی طرح مریضوں کا خون چوس رہے ہیں اور ادویات کے نام پر موت کے نسخے تجویز کیے جارہے ہیں۔ جہاں ملٹی نیشنل ادویات ساز کمپنیاں موت کی سوداگری کررہی ہیں۔ جہاں ملاوٹ مافیا خوراک کے خول میں موت کا سامان باہم پہنچا رہا ہے۔ جہاں انصاف بکتا اور ظلم کو فروغ دیا جارہا ہے۔
          مایوسی اور ناامیدی کے اس بیابان جنگل میں امید کی کرنیں  روشن کرنے، لڑکھڑاتی انسانیت کو سہارا دینے اور اپنے ہم وطنوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ اس سعادت کو مقصد زندگی بنا لینا ہماری ضرورت ہے۔ انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کرنا، جدید ترین مہارتوں سے آراستہ ہونا اور ابلاغ کی ہر نوع کو اپنے استعمال میں لاکر ایک پرامید زندگی کی بنیاد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ظلم کے سیاہ بادلوں سے ایک نئی  اور خوشگوارصبح  کا پیغام بن کر ہر دل پر دستک دینا اور قوم کااعتماد بحال کرکے ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل ہمارا ہدف ہے۔ خود کو اس کے لیے تیار کیجیے۔ اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ کل آنے والی نسلیں ہم پر فخر کرسکیں۔

مرہم عطاالرحمن چوہان


    دنیا کے ہر فرد کو توجہ، ہمدردی اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان جتنابڑا اور مالدار ہوگا، اس کو اتنی ہی زیادہ توجہ، ہمدردری اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ایسا سودا ہے جو مقام، مرتبے اور پیسے سے نہیں ملتا بلکہ مالِ بدل ہے، آپ جتنی محبت، ہمدردی اور تعاون دوسروں کو دیں گے اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو اس سے کہیں زیادہ محبت، ہمدردی اور تعاون حاصل ہوگا۔ یہ معاملہ صرف مثبت ہی نہیں بلکہ منفی بھی ایسا ہی ہے، جتنی نفرت، بیگانگی، دھوکہ اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے گا، وہ گھوم پھر کر واپس آپ کی طرف پلٹ آئے گی۔اس کا تعلق مذہب اور عقیدے سے نہیں بلکہ انسانیت سے ہے۔مسلمانوں کے لیے یہ معاملہ دُہرے فائدے کا ہے، دنیا میں بکھیری جانے والی محبتیں، خوشیاں اور سہولتیں تو ہر فرد کو اس کی زندگی میں ہی واپس مل ہی جاتی ہیں لیکن مسلمان اپنے عقیدے کی بدولت اس سے کئی گنا زیادہ منافع حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے بھی محفوظ کرلیتا ہے۔یہ اتنا پکا سودا ہے کہ اسے رب العالمین نے اپنے ذمے قرض قرار دیا ہے۔
    پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے لوگ ایثار پیشہ ہیں۔ ایثار، قربانی، صدقہ اورخیرات صرف مال کی صورت میں ہی نہیںدیا جاتا بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ مال تو وہی دے گا، جو صاحب مال ہے لیکن محبت کے دو بول ہر فرد دے سکتا ہے جس کے جبڑوں کے درمیان زبان کی نعمت میسر ہے، ، دست شفقت تو ہر وہ فرد بڑھا سکتا ہے، جس کو اللہ نے دو یا کم از کم ایک ہاتھ سے نواز رکھا ہے۔ محبت بھری نگاہ ہر وہ فرد عطیہ کرسکتا ہے جسے اللہ نے بینائی کی نعمت سے ہمکنار کررکھا ہو، بھلے وہ ایک ہی آنکھ ہو۔
    تیمارداری کی اہمیت وہی جانتا ہے جو کچھ دن علالت میں گزار چکا ہو۔فاتحہ خوانی کی اہمیت اس سے پوچھیے،جس کا کوئی پیارا موت کے منہ میں چلا گیا ہو اور کس، کس نے اظہار افسو س کیا، کس نے اس موقع پر ہمدردی کے دو بول بولے، کون اس گھڑی کو بھلا سکتا ہے۔شفقت کی نگاہ اور سر پر ہاتھ پھیرنے، گلے لگانے اور پیار کرنے کی قیمت اس سے پوچھیے جوماں یا باپ کی نعمت سے محروم ہو۔ راستہ بھول جانے والے کو منزل کی نشان دہی کردینے میں کیا جاتا ہے، کسی پریشان حال سے خیریت پوچھنے پر کتنے دام لگتے ہیں۔ کسی کے آنسو پونچ لینے میں کیا خرچ ہوتا ہے۔
    یہ سب کچھ رب کی عطا کردہ نعمتوں کی زکواة ہے۔ یہ دراصل اپنے لیے خوشیاں، محبتیں، سہولتیں اور آسانیاں خریدنے کا سودا ہے۔کیا کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ گھس جائے گا؟ کیا کسی کو اچھائی کی دو باتیں کہنے سے زبان کمزور پڑ جائے گی؟ کیا کسی بیمار کے سرہانے کھڑے ہوکر حوصلہ دینے سے ہمارے جسم میں قوت کم ہو جائے گی؟بالکل اسی طرح دوسروں کے لیے دئیے گئے مال میں سے بھی ایک پائی کم نہیں ہوتی، بلکہ اضافے کا ہی سبب بنتی ہے۔
    ہاں اگر آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال بھی ہے تو اس کا اڑھائی فیصد یا اس سے کچھ زیادہ دینے سے مال میں برکت ہوگی، اضافہ ہوگا بلکہ حیران کن اضافہ ہوگا۔ نقد منافع بھی حاصل ہوگا اور حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے رب العالمین کے نام قرض بھی واجب ہو جائے گا۔ ایسا رب جس سے بڑھ کرکوئی ایفائے عہد کر ہی نہیں سکتا اور ایسا رب جو اپنے ذمہ قرض کا ہزار گنا بلکہ کئی ہزار گنا بڑھا کر دینے کر دے گا۔
    خیر کو عام کرنے کے لیے غریب، لاچار اور بے بس کا انتظار نہ کیجیے، مذہب، مسلک، برادری اور علاقے کی تفریق میں نہ جائیے، ہر انسان اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ خیر کو عام کیجیے، بے دریغ کیجیے، ان گنت کیجیے، بے شمار کیجیے، چھپ کر کیجیے، سرعام کیجیے، اپنوں کے لیے، غیروں کے لیے، انسانوں کے لیے، جانوروں کے لیے۔ یہ سودا کردیجیے ، منافع صحت، سلامتی، صبر، شکر، حوصلے، عزم ، مال ، دولت اور عزت و توقیر کی صورت میں ملے گا اور بے حساب ملے گا۔
    بس بات یقین اور اعتماد کی ہے۔ اپنے ہاتھ میں، اپنی نگاہ میں ، اپنے قلب میں اور اپنی جیب میں ہمیشہ مرہم رکھیے، جب اور جہاںمحسوس کریں، اسے پیش کیجیے۔آخری بات حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو ضرورت مندوں کے لیے محنت کرتا ہے اس کا اجر جہاد فی السبیل اللہ جیسا ہے اور جو ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتا ہے اس کی ضرورتیں اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔